اعلی درجے کی تلاش
کا
6969
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/04/21
 
سائٹ کے کوڈ fa5732 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 25246
سوال کا خلاصہ
دنیا کے شرور کے خداوند متعال سے بالعرض انتساب کی وجہ کیا ہے؟
سوال
اس جملہ کے کیا معنی ہیں کہ: چونکہ خداوند متعال کمال محض ہے، اس کا ارادہ، بنیادی طور پر، مخلوقات کے کمال و خیر سے متعلق ھوتا ہے اور اگر کسی مخلوق کے وجود کا لازمہ دنیا میں شرور و نقص کا پیدا ھونا ھو، تو وہ بطورتتبع اس مقصود کے شر کی جہت ھوسکتی ہے، یعنی چونکہ وہ زیادہ خیر کا ناقابل تفکیک لازمہ ہے اس لئے بالتبع وہ غالب خیر پروردگار کے ارادہ کے تحت ھوتا ہے { اصول عقائد آیت اللہ مصباح، ص ۱۶۲}
ایک مختصر

جس چیز کو شر کے عنو ان سے یاد کیا جاتا ہے، مجردات کے عالم میں اس کا کوئی وجود نہیں ہے، اور یہ بحث عالم مادہ سے تعلق رکھتی ہے- خیر و شر کے معنی کےتجزیہ کے بارے میں یوں کہا گیا ہے: خیر وہ چیز ہے، جس کی ہر شے اپنی فطرت کے مطابق مطالبہ کرتی ہے اور اسے پسند کرتی ہے اور اگر انسان چند چیزوں کے درمیان شک و شبہہ سے دوچار ھو جائے تو وہ ان میں سے سب سے بہتر کو منتخب کرتا ہے اور شر، خیر کے مقابلے میں ہے-

خیر و شر کے لحاظ سےاشیاء پانچ قسموں میں تقسیم ھوتی ہیں، کہ ان میں سے صرف دو قسمیں خارج میں متحقق ھوتی ہیں اور وہ دو قسمیں حسب ذیل ہیں:

۱-خیر محض، یعنی خداوند متعال کا وجود -

۲-خیر غالب

جو کچھ  شر کے ساتھ  لفظ ایجاد ارادہ  الہی سے تعلق رکھتا ہے اور قضائے الہی بھی ذاتی طور پر اس میں شامل ھوتی ہے، وہ ایک مقدار ہے، جسے وجود نے اپنا یا ہے، بہ الفاظ دیگر، اس شے میں وجود حاصل کرنے کی استعداد پائی جاتی تھی اور واضح تر الفاظ میں اسے خدا نے پیدا کیا ہے، خدا کے ارادہ نے اسے پیدا کیا ہے اور اس پر قضائے الہی جاری ھوئی ہے- لیکن اس کے ساتھ جو عدم { شرور} پائے جاتے ہیں، وہ خدا وند متعال سے مستند نہیں  ہیں- بلکہ خود ان { شرور} کے وجود کو حاصل کرنے کی زیادہ قابلیت نہ رکھنے اور ان کے استعداد کی کوتاہی سے مستند ہیں-

تفصیلی جوابات

اس سوال کے بارے میں توضیحات بیان کرنے سے پہلے، اس امر کی یاد دہانی کرنا ضروری ہے کہ خیر و شر کی بحث ایک اہم بحث ہے کہ بہت سے بڑے فلاسفہ اور حکماء نے اس سلسلہ میں اپنے مختلف نظریات پیش کئے ہیں، لیکن جو چیز اس سوال کے جواب کے عنوان سے پیش کی جاتی ہے، اس پر اسلام کے اکثر فلاسفہ اور علم کلام کے علماء کا اتفاق ہے-

جس چیز کو شر کے عنوان سے یاد کیا جاتا ہے، وہ عالم مجردات میں موجود نہیں ہے اور یہ بحث عالم مادہ سے متعلق ہے-

خیر وشر کے معنی کے تجزیہ کے بارے میں یوں کہا گیا ہے کہ: خیر ایک ایسی چیز ہے کہ ہر شے اپنی فطرت کے مطابق اس کا مطالبہ کرتی ہے اور اسے پسند کرتی ہے اور اگر چند چیزوں کے درمیان شک و شبہہ سے دو چار ھو جائے، تو ان میں سب سے بہتر کو منتخب کرتی ہے اور شر، خیر کے مقابلے میں ہے، لیکن ان معنوں کی مکمل وضاحت کے لئے مفصل بحث کی ضرورت ہے، جس کی یہاں پر گنجائش نہیں ہے-

خیر وشر کے لحاظ سے اشیاء مندرجہ ذیل پانچ حصوں میں تقسیم ہو تی ہیں :

۱ – خیر محض       ۲ – شرمحض       ۳ – خیر غالب       ۴ – شر غالب       ۵ – مساوی خیر و شر

مذکورہ پانچ قسموں میں سے  صرف دو قسمیں خارج میں متحقق ہوتی ہیں :

۱ – خیر محض : یعنی خداوند متعال ، جس کا وجود ضروری ہے، وہ کمال مطلق ہے اورہر وجودی کمال کا مالک ہے –

۲ – خیر غالب : یعنی خیر، شرپر غالب ہو، چونکہ فراوان خیرکو ترک کرنے میں فراوان شر مضمر ہو تا ہے، اس لئے اس قسم کی اشیاء کےوجود کے لئےالہی عنایتیں لازم وملزوم ہوتی ہیں-

لیکن اس کی باقی تین قسمیں خارج میں متحقق نہیں ہوتی ہیں، کیونکہ شر محض وہی عدم محض ہے، جو نیستی اور صرف بطلان ہے اور اس کے وجود کی کوئی گنجائش نہیں ہے- لیکن باقی دو قسمیں، یعنی شرغالب اور مساوی خیر وشر، پروردگار عالم کی عنایتوں کے مطابق نہیں ہیں، کیونکہ الہی عنایت، نظام ہستی کو سب سے بہتر ممکنہ صورت میں استوار اور منظم کرتی ہے- اگراس کائنات کے مظاہر پر دقت اورسنجیدگی سے غور کیا جائے، تو معلوم ھوگا کہ کائنات کے تمام اجزاء زیبا ترین ممکنہ صورت میں پیدا کئے گئے ہیں-[1]

اس کی وضاحت یوں ہے کہ، جو کچھ ہم عدم کے بارے میں ذہن میں تصور کرتے ہیں، وہ یا عدم مطلق ہے، جو وجود مطلق کا مقابل اور نقیض ہے، یا عدم مضاف اور ملکہ سے منسوب ہے اور وہ کمال وجود کا عدم ہے، جو کمال ھونا چاہئیے تھا، مثال کے طور پر نا بینائی، جو حقیقت میں عدم بینائی ہے، جس کے لئے بینائی ھونی چاہئیے تھی، لہذا ہم دیوار کو نا بینا نہیں کہتے ہیں-

اس کی پہلی قسم کے لئے بھی کئی صورتیں قابل تصور ہیں-

پہلا تصور، یہ کہ عدم کو کسی چیز کی ماہیت کے ساتھ رکھیں نہ کہ اس کے وجود کے ساتھ، مثال کے طور پر زید کے عدم کا تصورکریں، اورخود اسے معدوم تصور کریں، نہ کہ اسے اس وقت جب وہ موجود تھا- یہ قسم، صرف ایک عقلی تصور ہے کہ اس میں کوئی شر قابل تصورنہیں ہے، کیونکہ ہم نےاس موضوع کا تصور نہیں کیا ہے جو "بود" و "نبود" کے درمیان مشترک ہے تاکہ " نبود" کوئی شرھو- البتہ ممکن ھے کہ انسان کسی چیز کے عدم کو اس چیز کا مقید بنائے، مثال کے طور پر وجود زید کے عدم کا تصور کرے، اور اسے وجود میں آنے کے بعد معدوم فرض کرے- اس قسم کا عدم شر ہے، لیکن اس قسم کا عدم، وہی ملکہ والا عدم ہے کہ اس کے بارے میں بعد میں وضاحت پیش کی جائے گی-

دوسرا تصور یہ ہے کہ کسی چیز کے عدم کا دوسری چیز سے موزانہ کریں، مثال کے طور پر ممکنہ مخلوقات کے لئے وجوب واجبی کا نہ ھونا اور انسانیت کے وجود کا نہ ھونا، جیسے  کسی دوسری ماہیت کے مانند نباتات کے لئے کسی حیوان کے وجود کا نہ ھونا اور گھوڑے کے وجود کے لئے گائے کا نہ ھونا، کہ اس قسم کا عدم ماہیات کے لوازم میں سے ہے، اور یہ اعتباری امر ہے نہ کہ گڑھا ہوا اورمتحقق شدہ-

عدم کی دوسری قسم ،وہی ملکہ کا عدم ہے اور وہ کسی چیز کےلئے کسی کمال کا فقدان ہے، البتہ وہ چیز اس کمال کو رکھنے کی قابلیت رکھتی ہو-اس کی مثال مختلف قسم کے فساد، نواقص، عیوب، آفات، بیماریاں،  رنج و الم اور ناگواریاں ہیں، جو کسی چیز پر عارض ہو تی ہیں کہ اس چیز میں یہ نواقص رکھنے کی قابلیت نہیں ہو تی ہے، بلکہ اس کے مقابلے میں کمال رکھنے کی قابلیت ہوتی ہے-

عدم کی یہ قسم، شر ہے اور یہ مادی امور میں ملتا ہے اور اس کا سر چشمہ ایک ایسی کمی ہے کہ جو مادی استعدادوں میں پایی جاتی ہے کہ البتہ یہ کمی ہر چیز میں یکساں نہیں ھوتی ہے، بلکہ اس کے مختلف مراتب ھوتے ہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ اس قسم کے عدم، جو شرور ہیں، کا سر چشمہ وجود کے فیض کا منبع یعنی باری تعا لی کی ذات نہیں ہے، اور انھیں ذات باری تعالی سے نسبت نہیں دی جاسکتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ ایک چیز کا عدم ہے، مانند خود عدم، جس طرح وجود کا سبب ایک دوسرا وجود ھوتا ہے، نہ کہ عدم-

جو کچھ  شر کے ساتھ  لفظ ایجاد ارادہ  الہی سے تعلق رکھتا ہے اور قضائے الہی بھی ذاتی طور پر اس میں شامل ھوتی ہے، وہ ایک مقدار ہے، جسے وجود نے اپنا یا ہے، بہ الفاظ دیگر، اس شے میں وجود حاصل کرنے کی استعداد پائی جاتی تھی اور واضح تر الفاظ میں اسے خدا نے پیدا کیا ہے، خدا کے ارادہ نے اسے پیدا کیا ہے اور اس پر قضائے الہی جاری ھوئی ہے- لیکن اس کے ساتھ جو عدم { شرور} پائے جاتے ہیں، وہ خدا وند متعال سے مستند نہیں  ہیں- بلکہ خود ان { شرور} کے وجود کو حاصل کرنے کی زیادہ قابلیت نہ رکھنے اور ان کے استعداد کی کوتاہی سے مستند ہیں-لیکن یہ کہ ان ہی عدموں کو ہم کیوں مخلوق جان کر ان کے بارے میں جفعل و اضافہ کی نسبت دیتے ہیں؟ وہ اس لحاظ سے ہے کہ یہ عدم اس وجود کی مقدار کے ساتھ متحد و آمیختہ ہیں-[2]

اس موضوع سے متعلق ہماری اسی سائٹ کا سوال نمبر ۹۳۶ { سائٹ: ۱۱۶۶} بھی قابل مطالعہ ہے-

 


[1]  - طبا طبائی، محمد حسین، " نھایت الحکمہ" ، شیروانی، علی، جلد ۳،ص ۳۵۳، بوستان کتاب، طبع ششم، قم ، ۱۳۸۴ھ ش-

[2] - طبا طبائی، محمد حسین ، " تفسیر المیزان" ، ترجمہ موسوی ہمدانی، ج ۱۳،ص ۲۵۹، جامعہ مدرسین، طبع پنجم، قم ، ۱۳۷۴ ھ ش-

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا