اعلی درجے کی تلاش
کا
10603
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/11/20
سوال کا خلاصہ
کیا عبدا للہ بن عباس اور عبدا اللہ بن جعفر جیسے افراد نے کربلا کے سفر میں امام حسین {ع} کی ہمراہی نہ کرکے نا فرمانی کی ہے؟ اگر انھوں نے نا فرمانی کی ہے تو اس کی کیا وجہ تھی اور وہ کیوں کربلا نہیں گئے؟
سوال
ایک مقرر نے اپنی تقریر میں کہا ہے کہ: " شہدائے کربلا کی اہمیت کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت یہ فیصلہ کرنا بہت سخت اور دشوار تھا، اسی لئے ابن زبیر، ابن عمر، ابن جعفر اور ابن عباس جیسے افراد اس قافلہ میں شامل نہ ھوسکے اور یہ سب ایک صف میں تھے، ان میں کوئی فرق نہیں تھا، کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبدا للہ بن جعفر اور عبدا اللہ بن عباس دوسروں سے الگ تھے، جی نہیں، ایسا نہیں ہے- نا فرمانی، نا فرمانی ہے، چاہے وہ کوئی بھی کرے- ان سب نے نا فرمانی کی تھی، ان میں سے کسی میں بھی حسین بن علی {ع} کا ساتھ دینے کی جرآت نہیں تھی، سوائے ان چند افراد کے" جب ہم تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں، تو ہمیں رسول خدا {ص} اور امام علی {ع} کی فرمائشات سے جناب عبدا اللہ بن عباس اور عبدا اللہ بن جعفر کی عظمت معلوم ھوتی ہے-\'\' کیا حقیقت میں انھوں نے امام حسین {ع} کی نا فرمانی کی ہے؟ اگر انھوں نے نا فرمانی کی ہے تو اس کی کیا وجہ تھی؟ مہربانی کرکے وضاحت کیجئے کہ وہ کیوں کربلا نہ گئے؟
ایک مختصر

اگر چہ جن لوگوں نے امام حسین {ع} کی نصرت کی اور ظلم و ستم سے مقابلہ کرتے ھوئے آپ {ع} کے ہمراہ شہادت پر فائز ھوئے، خدا کے ہاں خاص مقام و منزلت کے مالک ہیں اور کوئی اس مقام تک نہیں پہنچ سکتا ہے- لیکن جو افراد امام حسین {ع} کے پیرو تھے، لیکن کچھ وجوہات کی وجہ سے آپ {ع} کی رکاب میں شہادت کی توفیق حاصل نہ کرسکے ہیں، ان کے بارے میں یکساں فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ:

اولا: امام حسین {ع} نے نہ صرف انھیں اس سفر میں اپنے ساتھ ہمراہی کرنے پر مجبور نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے بعض ہم سفروں پر سے بیعت بھی اٹھالی تھی، جو آپ{ع} کے ہمراہ کربلا تک آئے تھے-[1]

ثانیا: چونکہ امام حسین {ع} کی شہادت پیغمبر اکرم {ص} اور امام علی {ع} [2]کی روایتوں کے مطابق آپ {ع} کے پیروں کے لئے مسلم اور یقینی تھی، لیکن آپ {ع} کے اپنے اس سفر کی ابتداء میں اور کوفہ پہنچنے اور حکومت کو اپنے ہاتھ میں لینے سے پہلے شہادت پر پہنچنا کوئی قطعی موضوع نہیں تھا، بلکہ ہزاروں کوفیوں کی بیعت کے پیش نظر بظاہر ایسا حاثہ واقع ھونا بعید لگتا تھا-

ثالثا: امام حسین {ع} کا ابتداء میں یزید کی بیعت نہ کرنا ایک مبارزہ تھا ، تمام بزرگوں کے لئے ابھی واضح نہیں ھوا تھا کہ اس تحریک کا انجام امام حسین {ع} اور آپ {ع} کے اصحاب کا قتل ھوگا-

رابعا: امام حسین {ع} جس وقت مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ میں داخل ھوئے، کوفہ کے لوگوں کی طرف سے شیعوں کی رہبری اور قیادت کے لئے دعوت کی گئی، اس لئے آپ {ع} نے کوفہ کی طرف روانہ ھونے سے پہلے، مسلم بن عقیل کو اپنے نمایندہ کے عنوان سے کوفہ بھیجا، کوفہ کے لوگوں نے ان کی بیعت کی اور حضرت مسلم نے امام حسین{ع} کو خط لکھا کہ کوفہ کے لوگ آپ کے استقبال کے لئے تیار ہیں- یہاں پر عبدا اللہ بن عباس نے امام {ع} کی خدمت میں تجویز پیش کی، کہ اگر بہر صورت مکہ سے باہر جانا چاہتے ھو، تو یمن جا نا کہ وہاں پر آپ {ع} کے والد محترم کے بہت سے شیعہ ہیں اور کوفہ جانے سے پرہیز کرنا ، کیونکہ وہاں کے لوگ بے وفا ہیں-[3] بہر صورت امام حسین {ع} کوفہ کی طرف روانہ ھوئے اور سرزمین کربلا میں پہنچ کر یزید کے سپاہیوں نے آپ {ع} کو آگے بڑھنے سے روکا- یہاں پر امام {ع} کے لئے یقین پیدا ھوگیا کہ یہ سر زمین ان کی اور ان کے صحابیوں کی وعدہ گاہ ہے- امام حسین {ع} نے مکہ سے کربلا جاتے ھوئے اپنے قافلے میں موجود اطراف کے بعض بزرگوں کو ہمراہی کی دعوت دیتے ھوئے فرمایا کہ میرے ساتھ ملحق ھوجاو یا میرے کاروان سے جدا ھو جاو، کیونکہ اگر عاشور کے دن میری " ھل من ناصر" کی آواز سن کر میری مدد کے لئے نہ آجاو گے، تو گناہ گار ھوں گے- اس کے علاوہ حتی شب عاشور میں بھی امام {ع} نے اپنے صحابیوں سے فرمایا کہ: آپ لوگ اس فرصت سے استفادہ کرکے لوٹ سکتے ھو اور اپنی زندگی کے پیچھے چلے جاو، لہذا اگر اس وقت بھی کوئی شخص امام {ع} سے خدا حافظی کرکے چلا جاتا تو گناہ کا مرتکب نہیں ھوتا-  صرف جوشخص عاشور کے دن امام حسین {ع} کی مدد کی آواز سن کر آپ {ع} کی مدد نہ کرتا وہ گناہ گار ھوتا، اور قدرتی طور پر ابن عباس اور عبدا للہ بن جعفر اس حالت میں نہیں تھے کہ امام {ع} کی " ھل من ناصر" کی آواز سنتے-

خامسا: البتہ اگر چہ ابن عباس اور عبدا للہ بن جعفر ، جیسے افرادقیام کربلا کے بارے میں گناہ گار نہیں ہیں، لیکن اجمالی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ انھوں نے یزید کی خلافت ، جو امام حسین {ع} اور معاویہ کے درمیان صلح کے منافی تھی، کی مخالفت نہیں کی اور ظلم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کی، اس لحاظ سے انھیں قصور وار ٹھہرایا جاسکتا ہے-

اس موضوع کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے آپ محمد بن حنفیہ کے کربلا میں حاضر نہ ھونے کی وجہ کا مطالعہ کرسکتے ہیں:

محمد بن حنیفہ کے کربلا میں حاضر نہ ھونے کا فلسفہ:

محمد بن حنیفہ نے کیوں کربلا کی تحریک میں امام حسین{ع} کی مدد نہیں کی؟ یہ سوال اکثر کیا جاتا ہے، چنانچہ مذکورہ سوال میں بھی اس امر کی طرف اشارہ ہے، اس کا جواب واضح ھونے کے لئے اس مسئلہ پر چند زاویوں سے تحقیق کرنے کی ضرورت ہے:

۱-ایک نظریہ کے مطابق وہ امام {ع} کی ہجرت کے وقت بیمار تھے، ان کی بیماری کی نوعیت کے بارے میں اختلاف ہے- [4]

۲-دوسرا نظریہ قابل قبول اور منطقی تر ہے، اور وہ یہ ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں اپنی عدم موجود گی کے دوران ایک اہم ماموریت سونپی تھی، اس نظریہ کے بارے میں چند شواہد موجود ہیں:

الف}علامہ مجلسی اور علامہ محسن امین کہتے ہیں: امام {ع} نے اپنے بھائی کو مدینہ میں دشمنوں کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لئے مامور کیا تھا- جب حضرت امام حسین {ع} اپنے اہل و عیال کے ہمراہ مکہ کی طرف روانہ ھوئے، اپنے بھائی کو مدینہ میں ایک جاسوس کے عنوان سے رکھا تاکہ مدینہ میں دشمن کی ہر نقل و حرکت اور اقدام سے امام {ع} کو آگاہ کرتا رہے:

" آپ مدینہ میں میری آنکھ ھو اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں مجھے کسی چیز سے بے خبر نہ رکھنا-"[5]

یہ اس دلیل کا ایک ثبوت ہے کہ امام {ع} نے اپنے بھائی کو ایک اہم ماموریت سونپی تھی-قدرتی بات ہے کہ امام {ع}، اسلامی علاقوں کے ایک اہم شہر یعنی مدینہ منورہ میں کسی کو مامور فرماتے تاکہ وہاں کے حالات سے بے خبر نہ رہیں-

ب} دوسرا شاھد: محمد حنیفہ کے نام امام {ع} کا آخری خط ہے- مورخین کہتے ہیں: امام {ع} نے جو آخری خط تحریر کیا ہے، وہ آپ {ع} کے بھائی محمد حنیفہ کے نام تھا- ابن قولویہ امام باقر{ع} سے یوں نقل کرتے ہیں: امام حسین {ع} نے کربلا سے محمد بن حنیفہ لو لکھا: بسم اللہ الرحمن الرحیم، حسین بن علی کی طرف سے محمد بن علی کے نام، اما بعد، گویا، دنیا نہیں ہے اور آخرت ہرگز نا بود ھونے والی نہیں ہے-[6]

اس لئے، اگر امام حسین {ع} اپنے بھائی کے کربلا کی تحریک میں شرکت نہ کرنے پر ناراض ھوتے، تو وہ ہرگز آخری خط انھیں نہ لکھتے-[7]

 


[1] شیخ مفید، الإرشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج ۲، ص۹۱، کنگره شیخ مفید، قم، طبع اول، 1413ھ .

[2] شیخ صدوق، الأمالی، ص ۱۳۴، اعلمی، بیروت، طبع پنجم، 1400ھ .

[3] تاریخ طبرى، محمد بن جریر طبرى، ترجمه، پاینده، ابو القاسم، ج ۷، ص ۲۹۶۶، اساطیر، تهران، طبع پنجم، 1375ش ھ؛ المسعودی، أبو الحسن على بن الحسین بن على، مروج الذهب و معادن الجوهر، تحقیق، اسعد داغر، ج ۲، ص ۵۸، دار الهجرة، قم، طبع دوم، 1409ھ.

[4] ملا حظہ ھو: محمد بن الحنفیة، ص 109- 112، به نقل از شیخ جعفر، النقدی، السیدة زینب الکبرى، ص 9، چنان که مهنا بن سنان عن رجال علامة لاهیجی، ص 119 نسخه خطی، میں نقل کیا ہے-

[5]  ملا حظہ ھو: مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج ۴۴، ص 329، مؤسسة الوفاء، بیروت، ۱۴۰۴ھ ؛ امین، سید محسن، أعیان الشیعة، ج 1، ص 588، دار التعارف للمطبوعات، بیروت.

[6] قمی، ابن قولویه، کامل الزیارات، ص 75، انتشارات مرتضویة، نجف، 1356ھ .

[7] - سوال نمبر ۱۲۷۸۸: کے جواب کا اقتباس

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا