اعلی درجے کی تلاش
کا
32118
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2010/05/06
سوال کا خلاصہ
ذکر سے کیا مراد ہے اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟
سوال
ذکر سے کیا مراد ہے اور اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ کیا افراد کے معنوی مقام و منزلت کے مطابق ذکر پر عمل کرنا چاہئے؟ کیا اسماء کا ذکر انسان کے لئے عالم غیب میں داخل ھونے کےسلسلہ میں اس کی قابلیت پراثر ڈالتا ہے؟
ایک مختصر

   خدا کے ذکر اور یاد روح و اخلاق کے لئے کافی اثرات رکھتے ہیں، جن میں خدا کے بندہ کو یاد کرنا، دل کی نورانیت، سکون قلب، { خدا کی نافرمانی} کا خوف، گناھوں کی بخشش اور علم و حکمت قابل ذکر ہیں- عام طور پر ذکر کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے: ذکر قلبی اور ذکر لسان، ذکر لسان کو ورد بھی کہا جاتا ہے- ذکر، اپنے حقیقی معنی میں یاد کرنا ہے اور اس نظریہ کے مطابق ہر مخلوق اپنے وجودی مرتبہ کے لحاظ سے ایک خاص مقام پر خدا کو یاد کرتی ہے اور ہر انسان بھی اپنے معبود کے بارے میں آگاہی کے ایک خاص مرتبہ پر قرار پاتا ہے یا اپنی حقیقی شناخت کے بارے  میں نسیان سے دوچار ھوتا ہے، اسی لحاظ سے انسان کامل خداوند متعال کی یاد کا تجسم اور عروج ھوتا ہے، جیسا کہ پیغمبر اسلام {ص} کے ناموں میں سے ایک نام " ذکر" ہے-

   ورد یا ذکر لسان کو بھی شریعت و عرفان میں خاص اہمیت ہے، اس کا مقصد انسان کا خدا کی طرف توجہ کرنا اور خدا کی یاد سے قلب کو زندہ کرنا ہے تاکہ اس ذکر اور مسلسل یاد کی روشنی میں ذاکر اور مذکور کے درمیان پردے ہٹائے جائیں- اسی لحاظ سے عرفان میں اذکار کا طریقہ اس عظیم مقصد تک پہنچنے کا ایک مقدمہ شمار ھوتا ہے جو عوالم کثرت و ظلمت کے پردوں کو ہٹانے کے لئے سالک کے وجود میں ضروری قابلیت پیدا کرتا ہے-

تفصیلی جوابات

   ذکر کے معنی یاد کرنا، زبان پر جاری کرنا، شہرت، ثنا خوانی، دعا اور ورد وغیرہ ہیں،[1] اور عارفوں کی اصطلاح میں ذکر، یاد کرنے، عمل پر ھوشیار، تحفظ، اطاعت، نماز اور قرآن وغیرہ کے معی میں آیا ہے-[2]

   خداوند متعال کے ساتھ عاشقانہ رابطہ کے خوبصورت ترین جلووں میں سے ایک جلوہ اور سیر و سلوک کی بنیادی راھوں میں سے ایک راہ ذکر ہے ، خدا کا ذکر، اسمائے الہی کو یاد کرتے ھوئے اپنی محدود ہستی کو فراموش کرنا ہے اور اس کا استمرار اور تداوم ، دلوں پر سے گناھوں کی آلائش کو دور کرتا ہے ، کیونکہ حق تعالی کی نسبت غفلت اور فراموشی دل کو آلودہ کرتی ہے- یہی وجہ ہے کہ اولیائے الہی اور آسمانی کتابوں کی ترسیل ان آلائشوں اور تاریکیوں کو دور کرتے ہیں اور اسی لئے " ذکر" کو پیغمبر {ص} کے اوصاف میں سے ایک وصف اور قرآن مجیدکا ایک نام شمار کیا گیا ہے- چنانچہ قرآن مجید ، پیغمبر کے "ذکر" ھونے کے بارے میں یوں اشارہ فرماتا ہے:

"... قد انزل الله اليكم ذكراً رسولاً يتلوا عليكم آيات الله..."؛[3]

"- - - اللہ نے تمھاری طرف اپنے ذکر کونازل کیا ہے ، وہ رسول جو اللہ کی واضح آیات کی تلاوت کرتا ہے- - -"

   اسی طرح قرآن مجید کے ناموں میں سے ایک نام بھی "ذکر" ہے:" "انّا نحن نزّلنا الذكر و انّا له لحافظون»؛[4] ہم نے ذکر {قرآن} کو تم پر نازل کیا ہے اور ہم اس کی حفاظت کریں گے-"

   قرآن مجید اور پیغمبر {ص} کو ذکر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں خدا وند متعال کو یاد کرانے والے ہیں، کیونکہ یاد دہانی گزشتہ علم پر منحصر ھوتی ہے اور یہ انبیائے الہی اور آسمانی کتابیں ہیں جو دلوں سے غفلت اور فراموشی کے پردوں کو ہٹا کر ان پر نور الہی کی روشنی ڈالتے ہیں- اس بنا پر خدا کی یاد انسان کو مادیت کی پستی سے معنویت کے کمال تک پہنچاتی ہے اور انسان کے اندر امید کو زندہ کرتی ہے اورمادی زندگی کے تعطل اور انسانی معادلات کی پیداوار یاس و ناامیدی کو دور کرتی ہے –

ذکر کی قسمیں اور اس کے درجات:

   چونکہ، ذکر خداوند متعال کی عبادتوں کا ایک حصہ ہے، اس لئے دوسری عبادتوں کے مانند اس کی بھی کئی قسمیں ہیں، مثال کے طور پر عام ذکر  اور خاص ذکر، عام ذکر کس معین مخلوق س مخصوص نہیں ہے، بلکہ ہر چیز میں پایا جاتا ہے، یعنی تمام اشیاء خدا کی یاد کرنے میں مشغول ہیں- خاص ذکر، خاص مخلوقات کی خصوصیت ہے، مثال کے طور پر فرشتوں کا خاص ذکر یا انسانوں کا خاص ذکر- ذکر، کبھی قلبی ھوتا ہے اور کبھی لسانی – البتہ اس قسم کی تقسیم صرف انسان سے مخصوص نہیں ہے، کیونکہ دوسری باشعورمخلوقات بھی کبھی خدا کو یاد کرتی ہیں، کہ وہی ان کا قلبی ذکر ہے اور کبھی اپنی مخصوص زبان میں خدا کا نام لے کر اسے یاد کرتی ہیں کہ وہی ان کا لسانی ذکر ھوتا ہے- امام محمد غزالی اپنی کتاب " کیمیای سعادت" میں کہتے ہیں: " ذکر کے چار درجے ہیں:

اول: وہ ذکر جو زبان پر جاری ھوتا ہے اور دل اس سے غافل ھوتا ہے، اس قسم کے ذکر کا اثر ضعیف ھوتا ہے ، لیکن بالکل ہی بے اثر نہیں ہے، کیونکہ جو زبان خدمت میں مشغول ھوتی ہے، اس زبان سے بہتر ہے جو بیہودگی میں مشغول ھو-

   امام خمینی {رح} زبانی ذکر کے بارے میں اعتقاد رکھتے ہیں کہ:" اگر چہ خدا کا ذکر قلبی صفات میں سے ہے اور اگر قلب متذکر ھو جائے، تو ذکر سے متعلق تمام فوائد مترتب ھوتے ہیں، لیکن بہتر یہ ہے کہ ذکر قلبی کے ساتھ ذکر لسانی بھی ھو، تمام ذکروں کی مکمل اور افضل صورت یہ ہے کہ ذکر انسان کی انسانیت کے مراتب پر جاری ھو اور اس کا حکم ظاہر و باطن اور مخفی و علنی جاری ھوجائے- - - لسان ذکر بھی قابل قبول اور مطلوب ہے اور انسان کو آخر کار حقیقت تک پہنچاتا ہے- اسی لئے احادیث اور کتابوں میں لسانی ذکر کی مدح سرائی کی گئی ہے-[5]   

دوم: وہ ذکر جو دل میں تمکین اور قرار پیدا نہ کرسکا ہو–

سوم: وہ ذکر جو دل میں اس طرح قرار پایا ھو کہ اسے دوسرے کام کے لئے استعمال کرنا مشکل ھو-

چہارم: وہ ذکر جو مذکور کے دل پر غالب ھو، اور وہ حق تعا لی ہے، نہ کہ ذکر-[6]

ذکر کے اثرات:

   خدا کا ذکر، عبد سالک کا رب مالک سے معنوی رابطہ ہے اور اس رابطہ کے معجزہ نما اور پر شکوہ نتائج ھوتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا انسان کے روح و اخلاق کی تعمیر میں کلیدی رول ھوتا ہے- ان اثرات میں سے بعض اہم حسب ذیل ہیں:

۱- بندہ کی نسبت خدا کی یاد

   خدا کی یاد کا سب سے پہلا اثر یہ ہے کہ خداوند متعال بھی اپنے بندہ کو یاد کرتا ہے:" فاذکرونی اذکرکم"[7] " مجھے یاد کرو تاکہ تمھیں یاد کروں"- چونکہ اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال کی یاد، بندہ کی طرف سے اسے یاد کرنے پر منحصر ہے، اس لئے اس سے ایک خاص اور دقیق نکتہ معلوم ھوتا ہے اور وہ نکتہ خدا کی طرف سے دوقسم کے ذکر کا تصور ہے:

الف: عام ذکر

ب: خاص ذکر

   عام ذکر کے معنی عام الہی ہدایت ہے، جو تمام مخلوقات سے متعلق ہے اور یہ کسی خاص گروہ سے مخصوص نہیں ھوتا ہے اور اس کی مثال، کرہ ارض پر الہی عام ذکر کے اثرات ہیں اور وہ خداوند متعال کی طرف سے تمام مخلوقات کو گونا گون نعمتیں عطا کرنا ہے اور یہ عام یاد خداوند متعال کا مسلسل فیض ہے، جو کبھی رکتا نہیں ہے- لیکن خدا کا خاص ذکر خدا کے خاص بندوں اور ذکر کرنے والوں سے متعلق ہے اور یہ خداوند متعال کی طرف سے ایک قسم کی توجہ اور مہر بانی ہے-

۲- دل کی روشنی:

   خدا وند متعال اپنے ذکر کو دلوں کے نورانی اور بیدار کرنے کا سبب جانتا ہے- امام علی{ع نے اپنے بیٹے امام حسن مجتبی{ع} کو ایک خط میں یہ تاکید کی ہے کہ: سب سے زیادہ اپنے دل کو آباد کرنے کی فکر کرنا:" "فانى اوصيك بتقوى الله - اى بنى- و لزوم امره و عمارة قلبك بذكره..."؛[8]

میرے بیٹے؛ میں تجھے تقوی، خدا کی فرمانبرداری اور ذکر خدا اور خدا کی رسی کو پکڑ کر اپنے قلب و روح کو آباد کرنے کی وصیت کرتا ھوں- - - -

   دل کی موت کے علاج اور اسے زندہ کرنے کا ایک سب سے موثر سبب خداوند متعال کے ذکر میں پناہ لینا ہے، خدا کا ذکر نور ہے اور اسے مسلسل جاری رکھنا دل کو تاریکی اور نا امیدی سے نجات دیتا ہے اور اس میں گرمی اور تازہ نشاط ڈالتاہے- ذکر کے اس پھل کو حضرت علی {ع} یوں بیان کرتے ہیں: "ان الله تعالى جعل الذكر جلاءً للقلوب تسمع به بعد الوقرة و تبصر به بعد العشوة و تنقاد به بعد المعاندة...؛[9] خداوند متعال نے اپنی یاد کو دلوں کی جلا قرار دیا ہے کہ اس کے نتیجہ میں کان سختی سے سنتے ہیں اور آنکھیں کم دیکھتی ہیں  اور ہٹ دھرمی اور دشمنی کے بعد رام ھوتے ہیں-"

۳- دل کا سکون:

   خدا کی یاد کا تیسرا پھل انسانوں کے دلوں کو آرام ملنا ہے- قرآن مجید کی تعبیر کے مطابق خداوند متعال کی یاد کا براہ راست نتیجہ اور پھل دل کا سکون ہے :" : "الذين آمنوا و تطمئن قلوبهم بذكرالله الا بذكر الله تطمئن القلوب"؛[10] " یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ھوتا ہے اور آگاہ ھو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ھوتا ہے-"

   خدا کی یاد اضطراب و افسردگی کا معنوی علاج ہے، علم نفسیات کے مطابق اس کا سبب :ترس، مستقبل کا ابہام ، ناکامی کا خوف، بیماریوں کا ڈر اور فطری عوامل کی پریشانی ہے- اضطراب کی بیماری کے علاوہ انسان کی فطرت میں آرام و آسائش طلبی پائی جاتی ہے اور انسانوں کی فطرت میں آرام طلبی پوشیدہ ہے اور انسان کی بہت سی سرگرمیاں حقیقت میں ندائے فطرت کا جواب ھوتی ہیں-

   جب ہم اپنی اور بہت سے لوگوں کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں،تو ہمیں معلوم ھوتا ہے کہ ہمارے بہت سے کاموں کامقصد آرام و آسائش کے گراں قیمت گوہر کو حاصل کرنا ھوتا ہے، یعنی انسان اپنی پوری زندگی کے دوران تلاش و کوشش کرتا ہے کہ آرام و اطمینان حاصل کرے – اس سلسلہ میں انسانوں کے درمیان اتفاق و اشترا ک پایا جاتا ہے، لیکن اختلاف نظران چیزوں کے بارے میں پایا جاتا ہے جو انسان کی زندگی کو آرام و سکون عطا کرتی ہیں- بہت سے لوگ اس گراں قیمت گوہر کو ثروت اندوزی اور مادی آرام اسائش میں جانتے ہیں، کچھ لوگ آرام و آسائش کو مقام و شہرت حاصل کرنے میں جانتے ہیں وغیرہ- لیکن قرآن مجید آرام و اطمینان کو صرف یاد خدا میں جانتا ہے : - - -"...الا بذكر الله تطمئن القلوب"؛" اور آگاہ ھوجاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ھوتا ہے-" اور نماز کے بارے میں فرماتا ہے:" ..اقم الصلاة لذكرى"؛[11] نماز کو میری یاد سے قائم کرو"

۴- خدا کا خوف:                                                                                                                                       

   مومنین کے لئے یاد خدا کے نتائج اور پھل کے طور پر خدا کا خوف ہے- قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: "انما المومنون الذين اذا ذكر الله و جلت قلوبهم...؛[12] " صاحبان ایمان در حقیقت وہ لوگ ہیں جن کے سامنے ذکر خدا کیا جائے تو ان کے دلوں میں خوف خدا پیدا ھو- - -"

۵- گناھوں کی بخشش:

   خدا وند متعال کی یاد کے اخروی نتائج اور پھل میں سے مغفرت الہی ہے کہ خدا کی یاد کرنے والوں کو عطا ھوتی ہے اور اس کے علاوہ خداوند متعال نے اس کے عوض میں بڑے اجر و ثواب کا وعدہ بھی کیا ہے – اس سلسلہ میں قرآن مجید کا ارشاد ہے: "... و الذاكرين الله كثيراً و الذّاكرات اعدّ الله لهم مغفرة و اجراً عظيماً؛[13] " خدا کا بکثرت ذکر کرنے والے مرد اور عورتوں کے لئے اللہ نے مغفرت اور عظیم اجر مہیا کر رکھا ہے-"

   خدا وند متعال نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لئے متعدد کام اور راہیں قرار دی ہیں اور ہر کوئی کسی نہ کسی وسیلہ سے اپنے لئے مغفرت طلب کرسکتا ہے، ان وسائل میں خداوند متعال کا بکثرت ذکر کرنا بھی شامل ہے-

۶- حکمت و علم:

   ذکر کے ثمرات میں سے ایک عقل کی پختگی اور کمال و حکمت ہے- ذکر انسان کے ادراک کی طاقت کو شکوفائی بخشنے اور فکر و اندیشہ کی بالیدگی کا سبب بن جاتا ہے- انسان کی جان اس کی شائستگی پیدا کرتی ہیں کہ وہ اپنے اندر غیبی حقائق کو منعکس کرے اور خداوند متعال اس شخص کی فکر و عقل کی مدد کرتا ہے- اس حقیقت کو امام علی {ع} نے یوں بیان فرمایا ہے: "...و ما برح لله - عزت آلاؤه- فى البرهة بعد البرهة و فى ازمان الفترات عبادٌ ناجاهم فى فكرهم و كلّمهم فى ذات عقولهم فاستصبحوا بنور يقظة فى الابصار و الاسماع و الافئدة...؛[14]" اور ہمیشہ خداوند متعال ، کہ جس کی نعمتیں عظیم ہیں، کے لئے ہرزمانہ کے بعد والے زمانہ میں، انبیاء کی عدم موجود گی اور دین کی سستی کے دوران ، ایسے بندے موجود تھے، کہ خداوند متعال ان کی فکر و اندیشوں کے ساتھ راز و نیاز کرتا تھا اور ان کی عقلوں کے مطابق ان سے گفتگو کرتا تھا- یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے ہدایت کے چراغ کو لوگوں کی آنکھوں، کانوں اور دلوں میں روشن کیا ہے-

ذاکروں کا معنوی مقام و منزلت اور ان کا ذکر:

   چونکہ ذکر، یاد کے دومعنی { یاد کرنے} اور ورد یعنی اسماء اللہ کی تکرار کے لسانی یا ذہنی صورت میں آیے ہیں، اس لئے ذکر کے مراتب کی بحث کے دوران اس کے ذاکروں کے معنوی رابطہ کے لحاظ سے بھی بحث کی جانی چاہئے-

۱-یاد کے عنوان سے ذکر کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: ہر انسان اور فرد سالک اپنے ذکر کے دوران، حقیقت میں ایک ایسی راہ کو یاد کرنے میں مشغول ھوتا ہے جو خدا سے شروع ھوئی ہے اور " اسفل السافلین" تک پہنچتی ہے– یعنی سالک اس راہ کو خدا کی طرف پلٹنے کے لئے یاد کرتا ہے اور اس میں معنوی و عرفانی حالات بھی ساتھ ھوتے ہیں کہ بعض اوقات اسے" یاد یار و دیار" اور " یاد روز گار وصال" کے عنوان سے بھی تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ انسان کی روح ایک ایسا پرندہ ہے جس کا آشیانہ عرش ہے اور اس دنیا میں ہجرت و غربت کا احساس کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اپنی اصلی جگہ کی یاد کرتا ہے اور اسی جگہ کی طرف حرکت کرتا ہے- اور یہ راہ وہی ذکر اور خداوند متعال کو یاد کرنا ہے- انسان اس چیز کو یاد کرتا ہے، جسے اس نے پہلے دیکھا اور اسے فراموش کرگیا ھو، جیسا کہ قرآن مجید میں اس موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: " جنھوں نے خدا کو فراموش کیا ہے، انھوں نے خود کو بھی فراموش کیا ہے:  

   "وَ لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْساهُمْ أَنْفُسَهُمْ"؛[15] " اور خبر دار ان لوگوں کی طرح نہ ھو جانا جنھوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا" اس بنا پر نماز، قرآن، پیغمبر {ص} اور دوسرے امور جو ذکر کے دائرے میں آئے ہیں اور ان سے ذکر کے طور پر استفادہ کیاگیا ہے، سب یاد آوری کے معنی میں ہیں اور اسی لئے انھیں ذکر کہا گیا ہے-

   اس نظریہ کے مطابق ظاہر ہے کہ ہر ایک اس ذکر کے ایک خاص درجہ پر واقع ہے اور ممکن ہے ایسے افراد بھی ھوں جو حقیقت الہی کے کسی اثر کو یاد نہ کرتے ھوں اور صرف زبانی ذکر پر اکتفا کرتے ھوں-

   بعض افراد اس الہی شناخت سے آگاہ ھوکر خدا کی طرف پلٹنے کے طالب ھوئے ہیں اور ذکر کی راہ پر گامزن ہیں، یہاں تک کہ ذکرو مذکور آپس میں ایک ہی ھو جائیں – اس بنا پر ذکر کے بارے میں ہر ایک کا نظریہ ایک خاص مقام پر ھوتا ہے جو صرف اس سے متعلق ھوتا ہے-

   لیکن ذکر کی تکرار اور ورد کے معنی کے بارے میں قابل بیان ہے کہ: یہ مسئلہ اسلام میں دو نظریات اور پہلووں سے متفاوت ہے:

۱- شریعت کا پہلو

۲- عرفان و طریقت کا پہلو

۱- شریعت کے پہلو کے بارے میں بہت سی احادیث کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے، جن میں مقدس اذکار و اوراد کی تاکید کی گئی ہے، کہ انھیں بجالانا معنوی ترقی اور تقرب الہی کا سبب بن جاتا ہے اور اس کے مطلوبہ نتائج حاصل ھوتے ہیں- اس لحاظ سے تمام اذکار اور اوراد مطلوب ہیں اور ہر شخص اپنے معنوی مقام و منزلت میں ان اذکار کو بجا لاسکتا ہے، مثال کے طور پر ذکر صلوات کی زیادہ سفارش کی گئی ہے یا استغفار اور لا حول ولا قوۃ الا باللہ وغیرہ، جو دعا کی کتابوں اور روایتوں میں درج ہے – اہل عرفان اور اہل ریاضت جن خاص حالات کے تحت ان اذکار کو عام طور پر بجالاتے ہیں ، بجا نہیں لائے جاتے ہیں اور یہ معنوی معراج اور خاص مقام و گروہ سے بھی مخصوص نہیں ہے اور یہ سب اذکار حقیقت میں دل کی آمادگی کا پہلو رکھتے ہیں تاکہ ذاکر میں معنوی معراج اور خدا کی طرف پلٹنے کے باطنی سفر کا آغاز ھو جائے-

۲- لیکن عرفانی پہلو میں عام طور پر بعض عرفانی دستور العمل میں مشاہدہ کیا جارہا ہے کہ سالک کے لئے ایک خاص ذکر کو ایک خاص تعداد اور خاص دنوں میں { مثال کے طور پر ایک اربعین کے دوران} پڑھنےکی سفارش کی جاتی ہے کہ اس کے خاص نفسیاتی اور روحانی اثرات ھوتے ہیں- اس مسئلہ میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس قسم کے عرفانی دستور العمل کے لئے استاد اور اجازت کی ضرورت ھوتی ہے اور اس کو ہر ایک کے لئے انجام دینے کی سفارش نہیں کی جاسکتی ہے- لیکن اس مقام پر ہر ورد اور ہر ذکر ، سالک کے معنوی مقام اور خاص مواقع کے مناسب ھوتا ہے اور اسی لحاظ سے استاد کامل اپنے علم پر مبنی اپنے مرید اور سالک کو اذکار و اوراد کے بارے میں خاص پروگرام دیتا ہے اور در حقیقت ان اذکار سے معنوی نتائج کا استفادہ کرتا ہے-

   اس نظریہ کے مطابق اذکار اور اوراد سے ایک امداد کے عنوان سے استفادہ کیا جاتا ہے، تاکہ سالک کے لئے معنوی معراج اور غیبی مقامات میں داخل ھونے کے مرتبے حاصل ھو جائیں اور حقیقت میں ذکر کے ایک مرتبہ پر فائز ھونا، معنوی عوالم کی یاد شمار ھوتا ہے-

   قابل بیان ہے کہ بعض کتابوں میں کچھ مطالب اور دستور العمل نقل کئے گئے ہیں، جو خاص اوراد پر مشتمل ہیں اور ان سے ماوراء الطبیعہ غیبی امور کو حاصل کرنے کے لئے استفادہ کیا جاتا ہے – آگاہ و عارف استاد کے بغیر ایسے مسائل میں الجھنا سالک کے لئے پریشانی کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے ایسے امور میں ایک کامل اور عارف استاد کا ھونا ضروری ہے-

 


[1] سعیدی، گل بابا، فرهنگ اصطلاحات ابن عربی، ص 228، انتشارات شفیعی، طبع دوم، تهران، 1384.

[2] سجادی، سید جعفر، فرهنگ اصطلاحات عرفانی، ص 402، انتشارات طهوری،طبع چهارم، تهران، 1378.

[3]  طلاق، 10 و 11.

[4] حجر، 9.

[5] امام خمینی، شرح چهل حدیث، ص 292- 293، مؤسسه نشر آثار امام خمینی، تهران، طبع بیست و هشتم، 1387.

[6] غزالی، کیمیای سعادت، ج1، ص254، انتشارات علمی و فرهنگی، تهران، طبع هفتم، 1375.

[7] بقره، 152.

[8] نهج‏البلاغه، نامه 31.

[9] ایضا، خ 222.

[10] رعد، 28.

[11] طه، 14.

[12] انفال، 2.

[13] احزاب، 35.

[14] نهج البلاغة، خ 222.

[15] حشر ، 19

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا