Please Wait
کا
16841
16841
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/11/10
سوال کا خلاصہ
کیا اسلام میں گالی دینا، برا بھلا کہنا، دشنام دینا اور لعنت کرناجائز ہے؟ کیا پیغمبر اسلام (ص) اور آپ (ص) کے صحابیوں نے کسی پر لعنت کی ہے؟ بعض اہل سنت کی طرف سے صحابیوں پر لعنت کرنے کی ممانعت کی اصلی دلیل کیا ہے؟
سوال
میں نے، برا بھلا کہنے اور لعنت کرنے کے بارے میں، کچھ مطالعات کئے ہیں، بظاہر برا بھلا کہنے کی، لعنت کرنے سے جدا بحث کی جاتی ہے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ اہل بیت (ع) نے برا بھلا کہنے سے پرہیز کرنے کی سفارش کی ہے اور اسے حرام جانا ہے۔ لیکن میں نے برا بھلا کہنے کے جائز ہونے پر مبنی ایک روایت بھی دیکھی۔ مہربانی کرکے وضاحت فر مائیے کہ یہ روایتیں کیسے قابل جمع ہوسکتی ہیں؟
ایک مختصر
قرآن مجید، روایات اور مسلمانوں کی سیرت کے پیش نظر برا بھلا کہنا( گالی دینا) خاص کر جھوٹ ہونے کی صورت میں، شرع مقدس اسلام کی نظر میں حرام اور ممنوع ہے۔ لیکن لعنت کا مسئلہ گالی سے فرق رکھتا ہے: لعنت، کسی شخص کے بُرے اعمال سے بیزاری کا اظہار اور اس کے رحمت خدا سے دور ہونے کے لئے دعا کے معنی میں جائز ہے۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں اور پیغمبر اسلام (ص) نے اپنے فرمائشات میں، بعض گروہوں کے برے اور نا پسند اعمال کی وجہ سے ان پر لعنت کی ہے۔ اسی طرح بعض صحابیوں نے بھی، بعض دوسرے صحابیوں پر، ان کے بُرے اعمال کی وجہ سے لعنت کی ہے۔
تفصیلی جوابات
" سبّ وشتم" لغت میں گالی، دشنام اور کسی فرد کی اس چیز سے توصیف کرنے کے معنی میں ہے جس سے وہ ذلیل و خوار ہو جائے۔[1]
اسلام کی نظر میں سبّ و شتم:
اسلام نے سبّ وشتم کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کے معنی میں منع کیا ہے:
1۔ خداوند متعال کا ارشاد ہے:" اور خبردار! تم لوگ انھیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔"[2]
2۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:" مسلمان کو دشنام دینا فسق اور گناہ ہے۔"[3]
3۔ جنگ صفین میں جب امیرالمومنین علی علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ (ع) کے بعض صحابی شامیوں کو برا بھلا کہتے ہیں ، تو حضرت (ع) نے انھیں اپنے پاس بلا کر یوں خطاب فرمایا:" مجھے پسند نہیں ہے کہ آپ دشنام (گالی) دینے والے ہوں، لیکن اگر ان کے کردار کی جانچ کرتےاور ان کے حالات پر نظر ڈالتے، تو قابل قبول و توجیہ تھا۔"[4]
4۔امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:" رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے: " دشنام دینے والا مومن اس شخص کے مانند ہے جو ہلاکت کے دہانے پر پہنچا ہو۔"[5]
لیکن ہم امام صادق(ع) کی ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:" اگر میرے بعد شک اور بدعت کرنے والوں کو پاؤ گے تو ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرو۔ ان میں سے اکثر کو (کلام حق سے) ذلیل و خوار کرو، ان کی بد گوئی کرو، اور انھیں برہان و دلیل سے خاموش کردو( تاکہ لوگوں کے دلوں میں شک و شبہہ پیدا نہ کرسکیں اور) اسلام میں فساد پھیلانے کی لالچ نہ کرسکیں اور نتیجہ کے طور پر لوگ ان سے دوری اختیاری کریں اور ان کی بدعتوں سے آلودہ نہ ہو جائیں اور خدا وند متعال اس کام کے بدلے میں آپ کے لئے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کے درجات کو بلند کرے گا۔[6]
اس روایت میں سبّ و شتم سے مراد وہ سخت رویہ ہے جو بدعت کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے اور اس کے سامنے ایسا کلام کیا جائے جو صحیح اور سچ ہو، نہ وہ کلام جو جھوٹا، دشنام اور گالی ہو۔[7] قدرتی طور پر اگر کچھ افراد دین اسلام کے بر خلاف اقدام کرنا چاہیں اور اس راہ میں کسی اقدام سے فرو گزاشت نہ کریں اور ان کا مقابلہ صرف طبیعی طور پر ممکن نہ ہو تو ان کے ساتھ نفسیاتی جنگ کے اصول کے مطابق مقابلہ کرنا چاہئے اور یہ روایت بھی یہی چیز بیان کرتی ہے۔
اسلام کی نظر میں لعنت
مسئلہ لعنت، سبّ و شتم سے فرق رکھتا ہے۔ لعنت کے معنی خوبی سے دور کرنا ہے۔[8] اس سلسلہ میں راغب اصفہانی کہتے ہیں: لعنت کے معنی غضب کے ذریعہ مسترد اور دور کرنا ہے۔ اگر لعنت خداوند متعال کی طرف سے ہو تو آخرت میں عذاب کے معنی میں اور دنیا میں قبول رحمت اور توفیق سے محروم ہونے کے معنی میں ہے۔ اور اگر انسان کی طرف سے ہوتو دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانے کے سلسلہ میں دعا و نفرین کی درخواست کے معنی میں ہے۔"[9]
اس بنا پر لعنت کسی شخص کے اعمال سے بیزاری کا اظہار اور اس کے رحمت خدا سے دور ہونے کے لئے دعا کے معنی میں جائز ہے۔
قرآن مجید میں لعنت
خداوند متعال نے قرآن مجید میں کئی مواقع پر متعدد گرہوں پر لعنت و نفرین کی ہے، جیسے ابلیس[10]، کافروں[11]، ظالموں [12]اور پیغمبر اکرم (ص) کو اذیت و آزار پہنچانے والوں پر[13]۔ اور یہ لعنت کے جائز ہونے کی بنیادی دلیل ہے۔
احادیث رسول (ص) میں لعنت
سنت نبوی پر غور و توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے " لعن" کی عبارت اور اس کے مشتقات کا بہت سے مواقع پر استعمال کیا ہے، حتی بعض خاص افراد کے بارے میں جو بعد میں مسلمان صحابیوں میں شمار ہوتے تھے۔[14]
پیغمبر اسلام (ص) بعض اوقات کلی طور پر لعنت کرتے تھے، چنانچہ مختلف روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت (ص) عورت کی شکل اختیار کرنے والے مرد، مرد کی شباہت اختیار کرنے والی عورت، غیر خدا کے نام سے حیوان کو ذبح کرنے والے شخص ، والدین پر لعنت کرنے والے ،قوم لوط کا عمل انجام دینے والےاور رشوت لینے والے کے مانند بد کار افراد پر لعنت کرتے تھے۔[15]اس کے علاوہ فرماتے تھے:" خدا شراب پلانے والے بیچنے والے اور خریدار پرلعنت کرے۔"[16]
اس کے علاوہ فرمایا ہے:" خدا لعنت کرے سود دینے، لینے، اس کی قرار داد لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر۔[17]
بعض اوقات پیغمبر اکرم (ص)مشخص اور معین افراد پر بھی لعنت کرتے تھے:
شعبی کہتے ہیں: عبداللہ بن زبیر کعبہ سے ٹیگ لگایا ہوا تھا اس نے اسی حالت میں کہا:" اس گھر کے پروردگار کی قسم، پیغمبر خدا(ص) نے فلانی اور اس کی صلب سے پیدا ہونے والے پر لعنت کی ہے۔"[18]عبداللہ بن زبیر کے اشارہ کئے ہوئے شخص کے بارے میں حاکم نیشابوری نے اپنی مستدرک کے ایک حدیث میں یہ شخص حکم بن عاص اور اس کا بیٹا بتاتے ہوئے لکھا ہے:" رسول خدا (ص) نے حکم بن عاص اور اس کے بیٹوں پر لعنت کی ہے"۔ [19] اس کے علاوہ مروان اور اس کے باپ پر بھی رسول خدا (ص) لعنت کرتے تھے:" پیغمبر خدا(ص) نے مروان کے باپ اور اس کی صلب میں موجود مروان پر لعنت کی ہے۔[20]
عبداللہ بن عمر نے کہا ہے کہ :" رسول خدا (ص) نے جنگ احد کے دن یوں نفرین کی: " اللھم العن ابا سفیان۔ ۔ ۔"[21]
اس کے علاوہ شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں اہل بیت(ع) کے دشمنوں پر لعنت کرنے کے ثواب کے بارے میں بکثرت روایتیں پائی جاتی ہیں۔[22]
بعض صحابیوں کے توسط سے بعض دوسرے صحابیوں پر لعنت کرنا
تاریخ میں جستجو کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ، بعض صحابی بھی دوسرے صحابیوں پر ان کے بُرے کاموں کی وجہ سے لعنت کرتے تھے: جیسے:
محمد بن ابی بکر، معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں، اس کو اور اس کے باپ کو ملعون اور نفرین شدہ جانتے ہیں اور اس سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: " تم ملعون اور نفرین شدہ اور نفرین شدہ کا بیٹا ہے! تم نے اور تیرے باپ نے پیغمبر اکرم (ص) کے خلاف ہمیشہ بغاوت کی ہے اور نور خدا کو بجھانے کی کوشش کی ہے۔ [23]
حَکَمیت کے قضیہ کے بعد، ابوموسی اشعری نے عمر وعاص سے مخاطب ہوکر کہا:" خداوند متعال تجھ پر لعنت کرے، تم ایک ایسے کتے کے مانند ہو کہ اگر دباؤ میں قرار پائے تو زبان کو منہ سے باہر نکالتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے( پھر بھی) زبان کو منہ سے باہر نکالتا ہے۔ عمرو نے کہا: خدا تم پر لعنت کرے، تم ایک گدھے کے مانند ہو جو کتابیں حمل کرتا ہے۔"[24]
صحابہ کی لعنت کے سلسلہ میں بعض اہل سنت کے دلائل:
اہل سنت، صحابیوں کو تشریع کے منابع جانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ قرآن مجید، سنت، اجماع وعقل کے ساتھ مذہب صحابی بھی تشریع کے منابع میں سے ایک ہے اور کبھی پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کے ساتھ صحابیوں کے عمل کو بھی سنت صحابی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر صحابی قابل تنقید ہوں یا ان پر لعنت کی جائے تو دین متزلزل ہوتا ہے، حالانکہ جس دین کی بنیاد پروردگار عالم نے اپنے پیغمبر (ص) کے ذریعہ ڈالی ہے اور وعدہ الہی کے مطابق قیامت کے دن تک باقی ہے، " چند افراد پر تنقید" سے ہرگز متزلزل نہیں ہوگا۔
اسی طرح یہ کلام کہ" مذہب صحابی منابع تشریع ہے۔" قابل قبول نہیں ہے، غزالی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" جس میں خطا اور غلطی سرزد ہونا ممکن ہو اور خطا سے اس کی عصمت ثابت نہ ہو، اس کا کلام حجت نہیں ہے، پس اس کے کلام پر کیسے استناد کیا جاسکتا ہے، جبکہ ممکن ہے اس نے خطا کی ہو؟ کسی متواتردلیل کے بغیر کیسے ان کے لئے عصمت کا دعوی کیا جاتا ہے اور کیسے ایک ایسی قوم کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے جن کے بارے میں اختلاف جائز ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ دو معصومین کے درمیان اختلاف پایا جائے؟ حالانکہ تمام صحابی اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ صحابیوں کے ساتھ اختلاف نظر کیا جاسکتا ہے۔ ابو بکر اور عمر کیوں قبول نہیں کرتے کہ کوئی اجتہاد کی بنیاد پر ان کی مخالفت کرے، بلکہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد پر واجب جانتے ہیں کہ وہ اپنے اجتہاد کی پیروی کرے۔"[25]
شوکانی نے عنوان " منابع تشریع" پر بظاہر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حجت نہیں ہے، کیونکہ خداوند متعال نے حضرت محمد (ص) کے علاوہ کسی کو اس امت کے لئے منتخب نہیں کیا ہے اور ہمارے پاس ایک پیغمبر(ص) اور ایک آسمانی کتاب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے اور ہم سب مامور ہیں کہ خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر (ص) کی سنت کی اطاعت کریں اور اس سلسلہ میں صحابیوں اور دوسرے افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام لوگ دینی تکالیف اور کتاب و سنت کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔ پس جو بھی یہ کہے کہ قرآن مجید اور سنت پیغمبر (ص) کے علاوہ کوئی اور چیز دین خدا میں حجت ہے ، تو اس نے خدا کے بارے میں غلط بات بتائی ہے"۔[26]
بہرحال، جو کچھ حجت ہے، وہ قرآن مجید، سنت پیغمبر (ص) ، مسلمانوں کا اجماع اور عقل قطعی ہے اور صحابیوں کا کلام اگر پیغمبر خدا (ص) سے استناد نہ ہو تو قطعاً حجت نہیں ہے۔
نتیجہ گیری
قرآن مجید، روایات اور مسلمنوں کی سیرت کے پیش نظر شرع مقدس اسلام کے مطابق سبّ و شتم حرام اور ممنوع ہے، لیکن لعنت، برابھلا کہنے کے بر خلاف نہ صرف بعض مواقع پر جائز ہے بلکہ اجتماعی لحاظ سے ضروری بھی ہے۔
اسلام کی نظر میں سبّ و شتم:
اسلام نے سبّ وشتم کو گالی دینے اور برا بھلا کہنے کے معنی میں منع کیا ہے:
1۔ خداوند متعال کا ارشاد ہے:" اور خبردار! تم لوگ انھیں برا بھلا نہ کہو جن کو یہ لوگ خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہیں کہ اس طرح یہ دشمنی میں بغیر سمجھے بوجھے خدا کو برا بھلا کہیں گے۔"[2]
2۔ پیغمبر اسلام (ص) نے فرمایا ہے:" مسلمان کو دشنام دینا فسق اور گناہ ہے۔"[3]
3۔ جنگ صفین میں جب امیرالمومنین علی علیہ السلام کو خبر دی گئی کہ آپ (ع) کے بعض صحابی شامیوں کو برا بھلا کہتے ہیں ، تو حضرت (ع) نے انھیں اپنے پاس بلا کر یوں خطاب فرمایا:" مجھے پسند نہیں ہے کہ آپ دشنام (گالی) دینے والے ہوں، لیکن اگر ان کے کردار کی جانچ کرتےاور ان کے حالات پر نظر ڈالتے، تو قابل قبول و توجیہ تھا۔"[4]
4۔امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:" رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے: " دشنام دینے والا مومن اس شخص کے مانند ہے جو ہلاکت کے دہانے پر پہنچا ہو۔"[5]
لیکن ہم امام صادق(ع) کی ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ رسول خدا (ص) نے فرمایا ہے:" اگر میرے بعد شک اور بدعت کرنے والوں کو پاؤ گے تو ان سے اپنی بیزاری کا اظہار کرو۔ ان میں سے اکثر کو (کلام حق سے) ذلیل و خوار کرو، ان کی بد گوئی کرو، اور انھیں برہان و دلیل سے خاموش کردو( تاکہ لوگوں کے دلوں میں شک و شبہہ پیدا نہ کرسکیں اور) اسلام میں فساد پھیلانے کی لالچ نہ کرسکیں اور نتیجہ کے طور پر لوگ ان سے دوری اختیاری کریں اور ان کی بدعتوں سے آلودہ نہ ہو جائیں اور خدا وند متعال اس کام کے بدلے میں آپ کے لئے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کے درجات کو بلند کرے گا۔[6]
اس روایت میں سبّ و شتم سے مراد وہ سخت رویہ ہے جو بدعت کرنے والے کو ذلیل و خوار کرے اور اس کے سامنے ایسا کلام کیا جائے جو صحیح اور سچ ہو، نہ وہ کلام جو جھوٹا، دشنام اور گالی ہو۔[7] قدرتی طور پر اگر کچھ افراد دین اسلام کے بر خلاف اقدام کرنا چاہیں اور اس راہ میں کسی اقدام سے فرو گزاشت نہ کریں اور ان کا مقابلہ صرف طبیعی طور پر ممکن نہ ہو تو ان کے ساتھ نفسیاتی جنگ کے اصول کے مطابق مقابلہ کرنا چاہئے اور یہ روایت بھی یہی چیز بیان کرتی ہے۔
اسلام کی نظر میں لعنت
مسئلہ لعنت، سبّ و شتم سے فرق رکھتا ہے۔ لعنت کے معنی خوبی سے دور کرنا ہے۔[8] اس سلسلہ میں راغب اصفہانی کہتے ہیں: لعنت کے معنی غضب کے ذریعہ مسترد اور دور کرنا ہے۔ اگر لعنت خداوند متعال کی طرف سے ہو تو آخرت میں عذاب کے معنی میں اور دنیا میں قبول رحمت اور توفیق سے محروم ہونے کے معنی میں ہے۔ اور اگر انسان کی طرف سے ہوتو دوسرے کو نقصان اور ضرر پہنچانے کے سلسلہ میں دعا و نفرین کی درخواست کے معنی میں ہے۔"[9]
اس بنا پر لعنت کسی شخص کے اعمال سے بیزاری کا اظہار اور اس کے رحمت خدا سے دور ہونے کے لئے دعا کے معنی میں جائز ہے۔
قرآن مجید میں لعنت
خداوند متعال نے قرآن مجید میں کئی مواقع پر متعدد گرہوں پر لعنت و نفرین کی ہے، جیسے ابلیس[10]، کافروں[11]، ظالموں [12]اور پیغمبر اکرم (ص) کو اذیت و آزار پہنچانے والوں پر[13]۔ اور یہ لعنت کے جائز ہونے کی بنیادی دلیل ہے۔
احادیث رسول (ص) میں لعنت
سنت نبوی پر غور و توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) نے " لعن" کی عبارت اور اس کے مشتقات کا بہت سے مواقع پر استعمال کیا ہے، حتی بعض خاص افراد کے بارے میں جو بعد میں مسلمان صحابیوں میں شمار ہوتے تھے۔[14]
پیغمبر اسلام (ص) بعض اوقات کلی طور پر لعنت کرتے تھے، چنانچہ مختلف روایتوں میں آیا ہے کہ آنحضرت (ص) عورت کی شکل اختیار کرنے والے مرد، مرد کی شباہت اختیار کرنے والی عورت، غیر خدا کے نام سے حیوان کو ذبح کرنے والے شخص ، والدین پر لعنت کرنے والے ،قوم لوط کا عمل انجام دینے والےاور رشوت لینے والے کے مانند بد کار افراد پر لعنت کرتے تھے۔[15]اس کے علاوہ فرماتے تھے:" خدا شراب پلانے والے بیچنے والے اور خریدار پرلعنت کرے۔"[16]
اس کے علاوہ فرمایا ہے:" خدا لعنت کرے سود دینے، لینے، اس کی قرار داد لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر۔[17]
بعض اوقات پیغمبر اکرم (ص)مشخص اور معین افراد پر بھی لعنت کرتے تھے:
شعبی کہتے ہیں: عبداللہ بن زبیر کعبہ سے ٹیگ لگایا ہوا تھا اس نے اسی حالت میں کہا:" اس گھر کے پروردگار کی قسم، پیغمبر خدا(ص) نے فلانی اور اس کی صلب سے پیدا ہونے والے پر لعنت کی ہے۔"[18]عبداللہ بن زبیر کے اشارہ کئے ہوئے شخص کے بارے میں حاکم نیشابوری نے اپنی مستدرک کے ایک حدیث میں یہ شخص حکم بن عاص اور اس کا بیٹا بتاتے ہوئے لکھا ہے:" رسول خدا (ص) نے حکم بن عاص اور اس کے بیٹوں پر لعنت کی ہے"۔ [19] اس کے علاوہ مروان اور اس کے باپ پر بھی رسول خدا (ص) لعنت کرتے تھے:" پیغمبر خدا(ص) نے مروان کے باپ اور اس کی صلب میں موجود مروان پر لعنت کی ہے۔[20]
عبداللہ بن عمر نے کہا ہے کہ :" رسول خدا (ص) نے جنگ احد کے دن یوں نفرین کی: " اللھم العن ابا سفیان۔ ۔ ۔"[21]
اس کے علاوہ شیعوں کی احادیث کی کتابوں میں اہل بیت(ع) کے دشمنوں پر لعنت کرنے کے ثواب کے بارے میں بکثرت روایتیں پائی جاتی ہیں۔[22]
بعض صحابیوں کے توسط سے بعض دوسرے صحابیوں پر لعنت کرنا
تاریخ میں جستجو کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ، بعض صحابی بھی دوسرے صحابیوں پر ان کے بُرے کاموں کی وجہ سے لعنت کرتے تھے: جیسے:
محمد بن ابی بکر، معاویہ کے نام ایک خط کے ضمن میں، اس کو اور اس کے باپ کو ملعون اور نفرین شدہ جانتے ہیں اور اس سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں: " تم ملعون اور نفرین شدہ اور نفرین شدہ کا بیٹا ہے! تم نے اور تیرے باپ نے پیغمبر اکرم (ص) کے خلاف ہمیشہ بغاوت کی ہے اور نور خدا کو بجھانے کی کوشش کی ہے۔ [23]
حَکَمیت کے قضیہ کے بعد، ابوموسی اشعری نے عمر وعاص سے مخاطب ہوکر کہا:" خداوند متعال تجھ پر لعنت کرے، تم ایک ایسے کتے کے مانند ہو کہ اگر دباؤ میں قرار پائے تو زبان کو منہ سے باہر نکالتا ہے اور اگر اسے چھوڑ دیا جائے( پھر بھی) زبان کو منہ سے باہر نکالتا ہے۔ عمرو نے کہا: خدا تم پر لعنت کرے، تم ایک گدھے کے مانند ہو جو کتابیں حمل کرتا ہے۔"[24]
صحابہ کی لعنت کے سلسلہ میں بعض اہل سنت کے دلائل:
اہل سنت، صحابیوں کو تشریع کے منابع جانتے ہیں اور اعتقاد رکھتے ہیں کہ قرآن مجید، سنت، اجماع وعقل کے ساتھ مذہب صحابی بھی تشریع کے منابع میں سے ایک ہے اور کبھی پیغمبر اکرم (ص) کی سنت کے ساتھ صحابیوں کے عمل کو بھی سنت صحابی کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں وہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر صحابی قابل تنقید ہوں یا ان پر لعنت کی جائے تو دین متزلزل ہوتا ہے، حالانکہ جس دین کی بنیاد پروردگار عالم نے اپنے پیغمبر (ص) کے ذریعہ ڈالی ہے اور وعدہ الہی کے مطابق قیامت کے دن تک باقی ہے، " چند افراد پر تنقید" سے ہرگز متزلزل نہیں ہوگا۔
اسی طرح یہ کلام کہ" مذہب صحابی منابع تشریع ہے۔" قابل قبول نہیں ہے، غزالی اس سلسلہ میں کہتے ہیں:" جس میں خطا اور غلطی سرزد ہونا ممکن ہو اور خطا سے اس کی عصمت ثابت نہ ہو، اس کا کلام حجت نہیں ہے، پس اس کے کلام پر کیسے استناد کیا جاسکتا ہے، جبکہ ممکن ہے اس نے خطا کی ہو؟ کسی متواتردلیل کے بغیر کیسے ان کے لئے عصمت کا دعوی کیا جاتا ہے اور کیسے ایک ایسی قوم کے بارے میں تصور کیا جاسکتا ہے جن کے بارے میں اختلاف جائز ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ دو معصومین کے درمیان اختلاف پایا جائے؟ حالانکہ تمام صحابی اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ صحابیوں کے ساتھ اختلاف نظر کیا جاسکتا ہے۔ ابو بکر اور عمر کیوں قبول نہیں کرتے کہ کوئی اجتہاد کی بنیاد پر ان کی مخالفت کرے، بلکہ اجتہادی مسائل میں ہر مجتہد پر واجب جانتے ہیں کہ وہ اپنے اجتہاد کی پیروی کرے۔"[25]
شوکانی نے عنوان " منابع تشریع" پر بظاہر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حجت نہیں ہے، کیونکہ خداوند متعال نے حضرت محمد (ص) کے علاوہ کسی کو اس امت کے لئے منتخب نہیں کیا ہے اور ہمارے پاس ایک پیغمبر(ص) اور ایک آسمانی کتاب کے علاوہ کوئی اور چیز نہیں ہے اور ہم سب مامور ہیں کہ خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر (ص) کی سنت کی اطاعت کریں اور اس سلسلہ میں صحابیوں اور دوسرے افراد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ تمام لوگ دینی تکالیف اور کتاب و سنت کی پیروی کرنے کے مکلف ہیں۔ پس جو بھی یہ کہے کہ قرآن مجید اور سنت پیغمبر (ص) کے علاوہ کوئی اور چیز دین خدا میں حجت ہے ، تو اس نے خدا کے بارے میں غلط بات بتائی ہے"۔[26]
بہرحال، جو کچھ حجت ہے، وہ قرآن مجید، سنت پیغمبر (ص) ، مسلمانوں کا اجماع اور عقل قطعی ہے اور صحابیوں کا کلام اگر پیغمبر خدا (ص) سے استناد نہ ہو تو قطعاً حجت نہیں ہے۔
نتیجہ گیری
قرآن مجید، روایات اور مسلمنوں کی سیرت کے پیش نظر شرع مقدس اسلام کے مطابق سبّ و شتم حرام اور ممنوع ہے، لیکن لعنت، برابھلا کہنے کے بر خلاف نہ صرف بعض مواقع پر جائز ہے بلکہ اجتماعی لحاظ سے ضروری بھی ہے۔
[1]۔ ابن درید، محمد بن حسن، جمهرة اللغة، ج 1، ص 69، بیروت، دار العلم للملایین، طبع اول؛ صاحب بن عباد، المحیط فی اللغة، ج 8، ص 254، بیروت، عالم الکتاب، طبع اول، 1414ق؛ لغتنامه دهخدا، واژه «سب»؛ فرهنگ لغت عمید، واژه «شتم».
[2]۔ انعام، 108.
[3] ۔ «سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ»؛ شیخ طوسی، محمد بن حسن، الأمالی، ص 537، قم، دار الثقافة، طبع اول، 1414ق؛ شیبانی، أحمد بن محمد، مسند احمد بن حنبل، ج 6، ص 157، بیروت، مؤسسة الرسالة، طبع اول، 1421ق.
[4] ۔ سید رضی، محمد بن حسین، نهج البلاغة، محقق، صبحی صالح، خطبه 206، ص 323، قم، هجرت، طبع اول، 1414ق.
[5] ۔ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، ج 2، ص 359، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع چهارم، 1407ق.
[6] ۔ «عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ إِذَا رَأَيْتُمْ أَهْلَ الرَّيْبِ وَ الْبِدَعِ مِنْ بَعْدِي فَأَظْهِرُوا الْبَرَاءَةَ مِنْهُمْ وَ أَكْثِرُوا مِنْ سَبِّهِمْ وَ الْقَوْلَ فِيهِمْ وَ الْوَقِيعَةَ وَ بَاهِتُوهُمْ كَيْلَا يَطْمَعُوا فِي الْفَسَادِ فِي الْإِسْلَامِ وَ يَحْذَرَهُمُ النَّاسُ وَ لَا يَتَعَلَّمُوا مِنْ بِدَعِهِمْ يَكْتُبِ اللَّهُ لَكُمْ بِذَلِكَ الْحَسَنَاتِ وَ يَرْفَعْ لَكُمْ بِهِ الدَّرَجَاتِ فِي الْآخِرَةِ»؛ الکافی، ج 2، ص 375.
[7] ۔ سروی مازندرانی، محمد صالح بن احمد، شرح الکافی (الاصول و الروضة)، ج 10، ص 34، تهران، المکتبة الإسلامیة، چاپ اول، 1382ق؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 71، ص 204، بیروت، دار إحیاء التراث العربی، طبع دوم، 1403ق.
[8] ۔ زهرى، محمد بن احمد، تهذیب اللغة، ج 2، ص 240، بیروت، دار احیاء التراث العربی، طبع اول؛ ابن فارس، أحمد، معجم مقاییس اللغة، ج 5، ص 352، قم، مکتب الاعلام الاسلامی، طبع اول، 1404ق؛ مصطفوى، حسن، التحقیق فى کلمات القرآن الکریم، ج 10، ص 201، بیروت، قاهره، لندن، دار الکتب العلمیة، مرکز نشر آثار علامه مصطفوی، طبع سوم.
[9] ۔ راغب اصفهانى، حسین بن محمد، مفردات الفاظ قرآن، ص 741، بیروت، دار القلم، طبع اول.
[10] ۔ سوره ص، 78.
[11] ۔ " بیشک اللہ نے کفار پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنم کا انتظام کیا ہے"۔ احزاب، 64۔
[12] ۔" آگاہ ہوجاؤ کہ ظالمین پر خدا کی لعنت ہے۔" ھود، 18
[13]۔ قطعاً جو لوگ خدا اور اس کے رسول کو ستاتے ہیں ان پر دنیا و آخرت میں خدا کی لعنت ہے اور خدا نے ان کے لئے رسواکن عذاب مہیا کر رکھی ہے۔احزاب۔ 57
[14] ملاحظہ ھو:«لعن بر بنی أمیه»، سؤال 8749.
[15] ۔ ملاحظہ ھو: مسند احمد بن حنبل، ج 2، ص 212، ج 3، ص 443 و 457، ج 4، ص 123 و ج 5، ص 83.
[16] ۔ ایضاً، ج 5، ص 74. ۔
[17] ۔ ایضاً،ج 2، ص 67.
[18] ۔ «حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ، وَ هُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَى الْكَعْبَةِ، وَ هُوَ يَقُولُ: وَ رَبِّ هَذِهِ الْكَعْبَةِ، لَقَدْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ(ص) فُلَانًا، وَ مَا وُلِدَ مِنْ صُلْبِهِ»؛ مسند احمد بن حنبل، ج 26، ص 51.
[19] ۔ «حَدَّثَنَاهُ ابْنُ نُصَيْرٍ الْخَلَدِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ، ثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَجَّاجِ بْنِ رِشْدِينَ الْمِصْرِيُّ بِمِصْرَ، ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَنْصُورٍ الْخُرَاسَانِيُّ، ثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَوْقَةَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ(ص) لَعَنَ الْحَكَمَ وَ وَلَدَهُ» هَذَا الْحَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ»؛ نیشابوری، محمد بن عبد الله، المستدرک على الصحیحین، ج 4، ص 528، بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع اول، 1411ق.
[20] ۔ . «رَسُولُ اللَّهِ(ص) لَعَنَ أَبَا مَرْوَانَ وَ مَرْوَانُ فِي صُلْبِهِ»؛ ایضاً، ج 4، ص 528.
[21] ۔ رمذی، محمد بن عیسى، سنن الترمذی، ج 5، ص 227، مصر، شرکة مکتبة و مطبعة مصطفى البابی الحلبی، طبع دوم، 1395ق.
[22]. ملاحظہ ھو: «ثواب لعن بر دشمنان اهل بیت(ع)»، سؤال 58828؛ «لعن مردگان در زیارت عاشورا»، سؤال 8750.
[23] ۔ مسعودی، ابو الحسن علی بن الحسین، مروج الذهب و معادن الجوهر، ج 3، ص 11، قم، دار الهجرة، طبع دوم، 1409ق.
[24] ۔ مقدسی، مطهر بن طاهر، البدء و التاریخ، ج 5، ص 228، بور سعید، مکتبة الثقافة الدینیة، بیتا.
[25] ۔ غزالی، أبو حامد محمد بن محمد، المستصفى، ص 168، بیروت، دار الكتب العلمية، طبع اول، 1413ق.
[26] ۔ شوکانی، محمد بن علي، إرشاد الفحول إلي تحقيق الحق من علم الأصول، ج 2، ص 188، بیروت، دار الكتاب العربي، طبع اول، 1419ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے