اعلی درجے کی تلاش
کا
6908
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2008/12/06
 
سائٹ کے کوڈ fa834 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 3756
سوال کا خلاصہ
کیا حضرت آیۃ اللھ سیستانی کی نظر میں قریشی عورتیں حیض کے مسئلھ میں دوسروں کے ساتھه فرق کرتی ھیں؟
سوال
حضرت آیۃ اللھ سیستانی کی نظر میں اگر کوئی عورت قریشی نھ ھو اور ۵۰ سے ۶۰ سال تک خون دیکھے اوراگر اس خون میں حیض کے آثار ھوں ، احتیاط مستحب کی بنا پر اسے مستحاضھ عورت کے مطابق عمل کرنا چاھئے اور وه، وه کام بھی انجام نھ دے جس سے حائض کو منع کیا گیا ھے۔ اس کو کس طرح سمجھه سکتے ھیں ؟ میں بالکل نھیں سمجھتی کھ اگر اس عورت نے یھ فیصلھ کیا کھ اس احتیاط مستحب پر عمل کرے تو کیا اس خون کو وه حیض محسوب کرے یا اسے پچاس سال کی عمر سے پھلے کی طرح عمل کرنا چاھئے ؟ مھربانی کرکے میرے لئے باریکی وضاحت کیجئے؟
ایک مختصر
تفصیلی جواب...
تفصیلی جوابات

حضرت آیۃ اللھ سیستانی اس سلسلے میں فرماتے ھیں جو خون عورتیں ساٹھه قمری سال مکمل ھونے کے بعد دیکھتی ھیں۔ اس کا حکم حیض کا حکم نھیں ھے اور احتیاط مستحب یھ ھے کھ جن غیر قریشیھ عورتوں نے  پچاس  سال کے مکمل ھونے سے ساٹھه  سال کی عمر تک اس طرح خون دیکھا کھ اگر پچاس سال پھلے دیکھتیں تو اس کا حکم یقینی طور پر حیض کا حکم ھوتا چنانچه اب اسے مستحاضھ اور حائض کے متروکات کے درمیان جمع کرنا چاھئے[1]

جیسا کھ آپ نے ملاحظھ کیا اس حکم میں احتیاط مستحب آیا ھے اور اس کا مطلب یھ ھے که جو عورتیں قریشیھ نھیں ھیں ان پر واجب نھیں ھے کھ اس حکم پر عمل کریں اگر انھوں نے پچاس سال کی عمر مکمل ھونے کے بعد اور ساٹھه سال کی عمر سے پھلے کوئی خون جس میں حیض کے علامتیں تھیں دیکھا تو اسے وه حیض مان سکتی ھیں اور جو اعمال حائض پر حرام ھیں ان کو ترک کریں لیکن اگر انھوں نے احتیاط کرنا چاھا۔ تو انھیں مستحاضھ احکام اور حائض کے متروکات کے درمیان جمع کرنا ھے یعنی جو چیزیں حائض پر حرام ھیں [2] انھیں ترک کریں اور عبادتیں بھی بجالائیں [3] نمازوں کو پڑھیں اور روزه رکھیں بالکل جس طرح مستحاضھ عبادتیں انجام دیتی تھی [4]



[1]  توضیح المسائل مراجع ، مسالھ ۴۳۵ ، ص ۲۵۳۔

[2]  جیسے قرآن مجید کے الفاظ کو چھونا اور خدا کے نام گرامی ، جس زبان میں بھی ھو اور احتیاط واجب کی بنا پر انبیاء اور ائمھ معصومیں علیھم السلام کے مبارک نام بھی اسی میں شامل ھیں ۲۔ اس سوره کا پڑھنا جس میں سجده کی آیت ھے اور جنھیں اصطلاح میں "سور العزائم" کھتے ھیں ۔ ۳۔ مسجد الحرام اور مسجد النبوی میں داخل ھونا اگرچھ ایک طرف داخل اور دوسری طرف خارج ھوجانے ۔ ۴۔ مساجد میں قیام کرنا لیکن ایک اگر دروازے سے اندر جائے اور دوسرے دروازے سے باھر نکلے تو اس میں کوئی اشکال نھیں ، احتیاط واجب یھ ھے کھ ائمھ معصومین علیھم السلام کے حرم میں بھی توقف نھ کرے ۔

۵۔ کسی چیز کو مسجد میں رکھنا یا اٹھانا ، ۶ جماع اور بیوی کے ساتھه ھم بستری کرنا ۔ 

 البتھ جو عبادتیں طھارت " وضو ، غسل ، تیمم " کے ساتھه مشروط ھیں حائض پر حرام ھیں جیسے نماز ، روزه ، طواف ، نماز میت کے علاوه ، جسے حائض عورت انجام دے سکتی ھے ، لیکن اس خاص مورد میں اسے مستحاضھ عورت کے مطابق عمل کرنا چاھئے۔ ۔ العروۃ الوثقیٰ ج ۱ فی احکام الحائض، ایضا ، فی غایات الوضو، توضیح المسائل مراجع ، ج ۱ مسالھ ۳۵۵، العروۃ الوثقی ج ۱ آداب صلاۃ المیت۔

[3]  توضیح المسائل مراجع ، ج ۱ مسئلھ ۴۴۲، العروۃ الوثقی ، ج ۱ آداب صلاۃ المیت۔

[4]  مثال کے طورپر نماز پڑھنا ، حضرت آیۃ اللھ سیستانی فرماتے ھیں: اگر استحاضھ قلیلھ ھو یعنی خون روئی کے اندر نھ گیا ھو ، تو خون دیکھنے کی صورت میں ھر نماز کیلئے وضو کرے اور روئی کو تبدیل کرنا یا پاک کرنا واجب نھیں ھے مثال کے طورپر نماز ظھر کیلئے وضو کرے اور دوباره خون دیکھنے پر نماز عصر کیلئے دوباره وضو کرے۔  

 اگر مستحاضھ متوسطھ ھے یعنی خون روئی کے اندر چلا جائے اسے چاھئے کھ وضو کرے اور غسل بھی انجام دے یعنی ھر نماز سے پھلے مستحاضھ قلیلھ کے مطابق عمل کرے اور ھر شب و روز میں نماز صبح سے پھلے اور اس نماز جس کو ادار کرنے سے پھلے ، پھلی مرتبھ خون دیکھا ھے غسل کرے ، اور احتیاط واجب کی بنا پر پھلے غسل کرے پھر وضو کرے لیکن اگر مستحاضھ کثیره وضو کرنا چاھتی ھے اسے چاھئے غسل سے پھلے وضو کرے۔

 اور اگر استحاضھ کثیره ھو یعنی خون سے پوری روئی بھر گئی ھے اور اس رومال تک جسے عورتیں عام طورپر خون نھ پھیلنے سے روکنے کیلئے استعمال کرتی ھیں ، بھی خون پھنچ گیا ھے ، تو احتیاط واجب کی بنا پر ھر نماز کیلئے روئی اور رومال کو تبدیل کریں یا اس کو دھولیں اور ایک غسل صبح کی نماز کیلئے اور ایک غسل ظھر اور عصر کیلئے اور مغرب و عشا کیلئے ایک غسل انجام دے اور ظھر اور عضر اور مغرب و عشا کے درمیان زیاده فاصلھ نھ رکھیں اور اگر فاصلھ رکھا تو عصر اور عشاء کیلئے دوباره غسل کریں یھ سب اس وقت ھے جب خون روئی سے رومال تک جاری رھے لیکن اگر خون کا پھنچنا فاصلھ کے ساتھه ھو کھ اس میں عورت ایک نماز یا اسے سے زیاده پڑه سکتی ھے تو احتیاط واجب یھ ھے کھ جب خون روئی سے رومال تک پھنچے تو روئی اور رومال کو تبدیل کرے یا دھولے اور غسل کرے پس اگر مثال کے طورپر عورت نے غسل کیا اور نماز ظھر کو پڑھا لیکن نماز عصر سے پھلے یا اس کے درمیان دوباره خون روئی سے رومال تک پھنچا تو اسے چاھئے کھ نماز عصر کیلئے بھی غسل کرے لیکن اگر فاصلھ اس مقدار میں ھے کھ عورت اس کسے درمیان دو نمازیں پڑھه سکتی ھے مثال کے طورپر نماز مغرب اور عشاء کو اس سے پھلے کھ خون دوباره رومال تک پھنچ جائے پڑھ لے تو اس نماز کیلئے ضروری نھیں ھے کھ دوباره غسل کرے اور ھر صورت میں استحاضھ کثیره میں غسل وضو سے کفایت کرتا ھے۔ ،

 رجوع کریں ، توضیح المسال مراجع ، ج ۱ مسئلھ ، ۳۹۴، ۳۹۶، العروۃ الوثقی ، ج ! فی الاستحاضھ ، مسالھ ج۱ اور ۲، مزید آگاھی کیلئے کھ کس طرح باقی عبادات کو انجام دیا جاسکتا ھے معظم لھ کے رسالھ کی جانب رجوع کریں۔

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا