Please Wait
کا
13527
13527
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2015/06/16
سوال کا خلاصہ
"موعظہ" اور " نصیحت" کے درمیان کیا فرق ہے؟
سوال
"موعظہ" اور " نصیحت" کے درمیان کیا فرق ہے؟
ایک مختصر
1۔ "موعظہ" اور" نصیحت" کسی حدتک مترادف ہیں۔روایت میں آیا ہے: الموعظة نصیحة شافیہ"[1] " موعظہ ایک شفا بخش نصیحت ہے۔" اس روایت میں موعظہ، یعنی وہ چیزیں بیان کرنا جو سننے والے کے دل کو نرم کرے، مثال کے طور پرثواب و عقاب بیان کرنا، یہ موعظہ، ایک ایسی نصیحت ہے جو نفسانی اور روحانی بیماریوں کو شفا بخشتی ہے۔
نصیحت، " نصح" سے خالص ہونے کے معنی می ہے، یعنی یہ کہ واعظ موعظہ کرتے وقت مخلص ہونا چاہئے اور ہدایت و راہنمائی اور اصلاح کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا ہو، اسی کو موعظہ کہتے ہیں۔
2۔ لیکن عمیق تر نظر ڈالنے سے ان دو الفاظ کے درمیان کچھ تفاوتوں کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے:
الف) " موعظہ"، یعنی انسانوں کے جذبات سے استفادہ کرنا، کیونکہ موعظہ اور نصیحت اکثر جذباتی پہلو رکھتے ہیں کہ انھیں اکساکر لوگوں کی بڑی تعدا کو حق کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔[2]
تربیت کا طریقہ، موعظہ ہے، موعظہ، تعلیم ، تقریر اور برہان سے انجام دینے میں فرق ہے اور اس میں خاص اثر ہوتا ہے۔ موعظہ کے وقت سننے والے پر کلام ایسے اثر ڈالتا ہے کہ اس کے قلب پر اثر اانداز ہوکر اس میں رقت انگیز ا باصفا اور نورانی حالت پیدا ہوتی ہے اگر چہ موعظہ اکثرا خطاب کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے اوراور عقلی براھین سے استفادہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا اثر عقلی استدلالوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
موعظہ، انسان کی فطرت کو بیدار کرتا ہے اور دل نشین ہوتا ہے اور دلیل برہان، اور امرو نہی سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ پندو نصیحت کو قبول کرنا ایک ایسی استعداد ہے کہ انسان کی جان میں موجود ہے اور تربیت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص دوسروں کی تعلیم و تربیت سے بے نیاز ہو لیکں کوئی ایسا نہیں ہے جو موعظہ سے بے نیاز ہو۔ حتی کہ دانشور اور صالح افراد بھی کبھی کبھی موعظہ کے محتاج ہوتے ہیں۔
اسلام بھی موعظہ کو ایک مفید اور موثر امر جانتا ہے اور اس کی قدر و منزلت اور اہمیت کے بارے میں بہت سی آیات و روایات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:" ایھا الناس! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت " قرآن" آچکا ہے"۔[3]
امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:" موعظہ، انسان کے نفوس کو صاف اور نورانی کرتا ہے۔"[4]
3۔ نصیحت، جیسا کہ کہا گیا : خالص ہونے اور خالص کرنے کے معنی میں ہے۔ پند کو اس لحاظ سے " نصح" اور " نصیحت" کہتے ہیں کہ خلوص نیت اور محض خیر خواہی پر مبنی ہوتی ہے۔[5]
قابل ذکر ہے کہ اجتماع میں نصیحت کرنا مناسب نہیں ہے اور کبھی اس کی حالت سرزنش کی جیسی ہوتی ہے: نصک بین العلماء تقریع"[6] اس بنا پر نصیحت خلوت میں کی جانی چاہئیے اور اجتماع یں نصیحت کرنا مومن کے لئے سرزنش، اذیت و آزار ہے۔[7]
نصیحت، " نصح" سے خالص ہونے کے معنی می ہے، یعنی یہ کہ واعظ موعظہ کرتے وقت مخلص ہونا چاہئے اور ہدایت و راہنمائی اور اصلاح کے علاوہ کوئی اور مقصد نہیں رکھتا ہو، اسی کو موعظہ کہتے ہیں۔
2۔ لیکن عمیق تر نظر ڈالنے سے ان دو الفاظ کے درمیان کچھ تفاوتوں کا بھی مشاہدہ کیا جاسکتا ہے:
الف) " موعظہ"، یعنی انسانوں کے جذبات سے استفادہ کرنا، کیونکہ موعظہ اور نصیحت اکثر جذباتی پہلو رکھتے ہیں کہ انھیں اکساکر لوگوں کی بڑی تعدا کو حق کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔[2]
تربیت کا طریقہ، موعظہ ہے، موعظہ، تعلیم ، تقریر اور برہان سے انجام دینے میں فرق ہے اور اس میں خاص اثر ہوتا ہے۔ موعظہ کے وقت سننے والے پر کلام ایسے اثر ڈالتا ہے کہ اس کے قلب پر اثر اانداز ہوکر اس میں رقت انگیز ا باصفا اور نورانی حالت پیدا ہوتی ہے اگر چہ موعظہ اکثرا خطاب کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے اوراور عقلی براھین سے استفادہ نہیں ہوتا ہے لیکن اس کا اثر عقلی استدلالوں سے زیادہ ہوتا ہے۔
موعظہ، انسان کی فطرت کو بیدار کرتا ہے اور دل نشین ہوتا ہے اور دلیل برہان، اور امرو نہی سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ پندو نصیحت کو قبول کرنا ایک ایسی استعداد ہے کہ انسان کی جان میں موجود ہے اور تربیت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص دوسروں کی تعلیم و تربیت سے بے نیاز ہو لیکں کوئی ایسا نہیں ہے جو موعظہ سے بے نیاز ہو۔ حتی کہ دانشور اور صالح افراد بھی کبھی کبھی موعظہ کے محتاج ہوتے ہیں۔
اسلام بھی موعظہ کو ایک مفید اور موثر امر جانتا ہے اور اس کی قدر و منزلت اور اہمیت کے بارے میں بہت سی آیات و روایات موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہم قرآن مجید میں پڑھتے ہیں:" ایھا الناس! تمہارے پاس پروردگار کی طرف سے نصیحت اور دلوں کی شفا کا سامان اور ہدایت اور صاحبان ایمان کے لئے رحمت " قرآن" آچکا ہے"۔[3]
امام علی علیہ السلام نے فرمایا ہے:" موعظہ، انسان کے نفوس کو صاف اور نورانی کرتا ہے۔"[4]
3۔ نصیحت، جیسا کہ کہا گیا : خالص ہونے اور خالص کرنے کے معنی میں ہے۔ پند کو اس لحاظ سے " نصح" اور " نصیحت" کہتے ہیں کہ خلوص نیت اور محض خیر خواہی پر مبنی ہوتی ہے۔[5]
قابل ذکر ہے کہ اجتماع میں نصیحت کرنا مناسب نہیں ہے اور کبھی اس کی حالت سرزنش کی جیسی ہوتی ہے: نصک بین العلماء تقریع"[6] اس بنا پر نصیحت خلوت میں کی جانی چاہئیے اور اجتماع یں نصیحت کرنا مومن کے لئے سرزنش، اذیت و آزار ہے۔[7]
[1] ۔ لیثی واسطی، علی، عیون الحکم و المواعظ، ص 497، قم، دار الحدیث، طبع اول، 1376ش.
[2] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 11، ص 455 - 456، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع اول، 1374ش.
[3] ۔ یونس، 57.
[4] ۔ تمیمی آمدی، عبد الواحد بن محمد، غرر الحکم و درر الکلم، ص 72، قم، دار الکتاب الإسلامی، طبع دوم، 1410ق.
[5]۔ قرشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج 7، ص 71، تهران، دار الکتب الإسلامیة، طبع ششم، 1371ش.
[6] ۔ عیون الحکم و المواعظ، ص 497.
[7] ۔ آقا جمال خوانساری، محمد، شرح بر غرر الحکم و درر الکلم، ج 6، ص 173، دانشگاه تهران، طبع چهارم، 1366ش.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے