اعلی درجے کی تلاش
کا
9859
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/05/20
سوال کا خلاصہ
قبروں کی زیارت کچھ مدت کے لیے منع تھی ۔ اس کی کس سال میں اجازت دی گئی؟۔
سوال
ایک خاص مختصر مدت کے لیے قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا تھا، اھل سنت کے منابع کے مطابق جو پیغمبر)ص( کی ایک حدیث کے استناد سے ، جناب سبحانی نے ایک جگہ کہا ہے کہ اھل کتاب نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنایاتھا، پیغمبر نے اسی دلیل کی رو سے قبروں کی زیارت کو منع کیا پھر جایز قرار دیا، اس سلسلے میں مزید وضاحت کیجئے ، کہ کس سال میں اجازت دی گئی؟
ایک مختصر

اسلام کے ابتدائی دور میں جن امور سے کچھ مختصر مدت کے لیے روک دیا گیا تھا اور وہ منع تھے۔ وہ قبور کی زیارت تھی، اس منع کی بہت سی دلیلیں تھیں یہاں تک کہ اسلامی سماج کی وسعت اور اس کی ترقی کے ساتھ اس بات کے لیے ایک مناسب ماحول پیدا ہوا، لھذا پیغمبر اکرم )ع( نے کچھ مدت کے بعد زیارت قبور کو جائز قرار دیا اور مسلمانون کو زیارت قبور کے آداب اور اسکی کیفیت سے آگاہ کیا۔

تفصیلی جوابات

تاریخی شواھد و قرائن اور قرآن و سنت سے تائیدات کی بناء پر ، اسلام سے پہلے امتوں میں قبور کی زیارت مختلف صورتوں میں موجود تھی۔ انسانی تاریخ کے دور می اکثر اقوام اور ملتوں کو اپنے اشخاص اور بزرگوں کی یاد زندہ رکھنے کے وسائل میں یہ ایک رائج وسیلہ رہا ہے۔ قبروں پر آرامگاہ تعمیر کرنا اور ان کی زیارت کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ ہم دنیا کی مختلف  انسانی تہذیبوں کے درمیان جیسے یونان ، ایران اور قدیم مصر ، عظیم بارگاھوں اور با شکوہ تعمیرات کو دیکھ رہے ہیں جو پیغمبروں ، بادشاھوں اور عظیم شخصیتوں کے مرقد ہیں، اور یہ جگہیں زمانے کے گزرنے کے  ساتھ ساتھ کسی زیارتگاہ ، یا بعض اوقات بعض دینوں کے پیروکاروں کی عبادت گاھوں میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ بعض روایات بھی پیغمبروں  یا دوسرے اشخاص کی عبادت کرنا یا ان کی قبور کو مسجد اور نماز پڑھنے کی جگہ قرار دینے کی حکایت کرتی ہیں کہ ان میں یہودی اور نصاری بھی شامل ہیں۔[1]

قرآن شریف اصحاب کہف کے بارے میں، اور لوگوں کے لیے غار سے ان کے بدن نمایان ہونے کے سلسلے میں ایک ایسی حقیقت کی جانب اشارہ کرتا ہے جو قدیم زمانے کے لوگوں میں رائج تھی ،اور وہ  محترم شخصیات کے مقبروں پر تعمیرات  بنانا تھا۔ مورد نظر آیہ اصحاب کہف کی عزت کرنے کے بارے  میں لوگوں کے اختلاف کی طرف اشارہ کرتی ہے جن میں بعض مقبرے کی تعمیر کرنا، اور بعض انکے مقبرے پر مسجد بنانے کی تجویز دیتے تھے ، قرآن کریم ان دو تجاویز میں کسی کی بھی مذمت نہیں کرتا ہے[2] اور عام طور پر ان تجاویز کا مقصد اصحاب کہف کی زیارت کرنا اور ان کا احترام کرنا ہے

اب بحت یہ ہے کہ زیارت قبور یا مقبروں کی تعمیر کرنا مسلمانوں کے درمیان کب سے آغاز ہوا ہے؟ کیا اسلام  کا سورج طلوع ہونے کے ساتھ اس کا آغاز ہوا ہے یا آنحضرت)ص ( کی بعثت سے کچھ فاصلے کے بعد وجود میں آیا ہے؟

 روایات اور تاریخی واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت)ص ( نے ابتداء میں قبروں کی زیارت سے روکا ہے ، یہ رکاوٹ مختلف دلائل  کی وجہ سے واقع ہوئی ہے جن کے ختم ہونے سے یہ روک بھی اٹھا دی گئی ہے اور قبروں کی زیارت نہ صرف جائز بلکہ ایک مستحبی عمل بن گیا۔

کچھ دلائل جن کی وجہ سے آنحضرت)ص ( نے مسلمانوں کو ابتدائی دور میں قبروں کی زیارت سے منع کیا ہے  ان میں بعض دلائل کی جانب اشارہ کیا جاتا ہے۔

 ۱۔ اسلام کے ابتدائی دور میں شاید اکثر یا پورے مقبرے مشرکوں اور بت پرستوں کے تھے ، اور اسلام نے انکے ساتھ ھر طرح کے ناطوں اور روابط کو توڑدیا ان ناطوں اور روابط میں ان کی قبروں کی زیارت بھی شامل تھی جس سے آنحضرت نے منع کیا [3]

۲۔ اس طرح لوگوں کا تازہ مسلمان ہونا اور اسلامی سماج کا جاھلیت کے عادات اور رسومات سے پاک نہ ہونے تک اس بات کا امکان تھا کہ انھیں سے خلاف شریعت اعمال من جملہ جاھلیت کے رسوم کے مطابق قبروں پر گریہ اور عزاداری کرنے سے روکنے کے لیے قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا ہو جب تک مناسب زمین ھموار نہ ہوجائے، پس اسلامی تعلیمات کے پھیلنے اور مسلمانوں کے دلوں میں ان کے راسخ اور پایدار ہونے کے بعد قبور کی زیارت سے رکاوٹ اٹھا دی گئی اور رسول اکرم )ص( نے زیارت قبور کی تاکید بھی کی۔ اس بات کی تائید آنحضرت)ص( سے منقول زیارت قبور کے سلسلے میں حدیث سے ہوتی ہے کہ فرمایا: میں آپ لوگوں کو قبور کی زیارت سے روکتا تھا پس اب تم قبور کی زیارت کرسکتے ہو  لیکن کوئی ناصواب بات نہیں کہنا۔ [4]

 ۳۔ ایک اور دلیل کو شاید اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ زیارت قبور، اس دور میں جب دین اسلام کا درخت پروان چڑھ ہی رہا تھا۔  یہ دین اپنی حیات کے ابتدائی دور میں تھا، اور اس دین کو مختلف خطرات کا سامنا تھا ، مسلمانوں کو اپنے شھداء کی یاد دلاتا تھا ور انہیں جہاد کے سلسلے میں سست  کرنے کا سبب بنتا تھا لیکن اسلام کے دور اقتدار میں یہ مشکل بھی دور ہوئی اور قبور کی زیارت کو جائز قرار دیا گیا۔ [5]

 زیارت قبور سے رکاوٹ اٹھانے کی کیفیت اور تاریخ

اختصار کے ساتھ جو کچھ  بیان ہوا، پیغمبر اکرم )ص( نے ابتدائی دور میں قبور کی زیارت سے منع کیا لیکن یہ رکاوٹ زیادہ دیر تک نہ رہی اور مناسب زمینہ فراھم ہوتے ہی ہجرت کے ساتویں سال میں عمرہ حدیبیہ[6] کے دوران پیغمبر اکرم )ص( نے اپنی ماں کی قبر کی زیارت کی اور وہاں ان کی قبر شریف کی مرمت کی ، آنحضرت)ص(  نے ان کے مزار پر ایسے گریہ کیا کہ جو مسلمان آنحضرت )ص( کے ساتھ تھے وہ بھی متاثر ہوئے اور انہوں نے بھی گریہ کیا آنحضرت نے فرمایا :خداوند نے محمد کو اپنی ماں کی قبر مطہر کی زیارت کی اجازت دی ہے آنحضرت)ص(  نے یہ بھی فرمایا کہ میں پہلے آن لوگوں کو قبروں کی زیارت سے منع کرتا تھا لیکن اب قبور کی زیارت کے لیے جاو۔ [7]

قرآن اور سنت کی روشنی میں زیارت قبور

 جس چیز سے انسان کا مادی یا معنوی رابطہ رہتا ہے اس کی زیارت کرنا ان امور میں سے ہے جو انسانوں کی پاک روح کو اچھی لگتی ہے لہذا قرآن و سنت میں اصل زیارت قبور کی تائید کی گئی ہے۔

 قرآن کریم میں اس بات کی جانب اشارہ ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں زیارت کی طرف توجہ دی گئی ہے خداوند متعال نے قرآن کی ایک آیہ شریفہ میں آنحضرت کو کافروں کے قبور پر حاضری دینے اور ان پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ مفسرین کرام کے مطابق ان دو باتوں سے منع یعنی منافقوں کی قبروں بر نماز اور حاضر نہ ہونا ، یہ بات مومنوں کے لیے مطلوب ہے[8]

پیغمبر اکرم )ص( نے زیارت کے علاوہ اپنے عمل اور تعلیمات کے ذریعے زیارت کی کیفیت کے بارے میں ، نیز مردوں کو کیسے مخاطب کرنے کے ساتھ ساتھ  قبور کی زیارت کو شرعی حیثیت عطا کی ہے اس سلسلے میں بعض روایات بیان ہوئی ہیں جن میں سے اختصار کے پیش نظر صرف دو کی طرف اشارہ کیا جاتاہے۔

 ام المومنین حضرت عایشہ )رض(سے روایت ہے کہ وہ بعض راتوں کو بقیع جاتی تھی اور فرماتی تھی مسلمانوں اور مومنوں کے اھل دیار پر سلام ہو، جو کچھ آپ کو وعدہ دیا گیا ہے وہ آگیا ہے۔ خدا ہمارے اموات اور اسلاف پر رحمت کرے اور ہم آپ سے جلدی ہی ملحق ہوں گے۔

اسی  طرح وہ یہ بھی نقل کرتی ہیں کہ پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا: جبرئیل امین میرے پاس آئے اور فرمایا خداوند آپ کو یہ حکم دیتا ہے کہ بقیع جاکر وہاں کے لوگوں کےلیے مغفرت کی دعا کریں۔ [9]

 زیارت قبور کے فوائد

 زیارت قبور میں بہت سے اھم تربیتی اور اخلاقی اثرات موجود ہیں کہ رسول اکرم )ص( نے ان میں بعض کی طرف اشارہ کیا ہے، پیغمبر اکرم )ص( نے فرمایا: قبور کی زیارت کے لیے جاو بے شک وہ تمہارے لئے آخرت کی یاد تازہ کرتی ہے۔ [10]

 ان بزرگ انسانوں کے مقبروں کا مشاھدہ کرنا جو نسلی امتیازات کے باوجود  ایک زمانے میں اس زمین میں رہتے تھے اور اب ان مقبروں میں مدفون ہیں ، انسان سے دنیاوی لالچ اور حرص کی روح کو ختم کرتا ہے اورکبھی کبھی دنیاوی زندگی کی حقیقت کے بارے میں مشاہد کی نظر تبدیل ہوتی ہے اور اس طرح وہ اپنے کردار اور اعمال میں تبدیلی لاتا ہے ۔ یہ تبدیلی  برے کاموں سے دور کرنے اور نیک کاموں کی طرف توجہ کرنے کا وسیلہ فراھم کرتی ہے  لہذا آنحضرت  نے زیارت قبور کے اس تربیتی اثر کی طرف توجہ دلائی ہے اور فرمایا ہے: زیارت قبور کے لیے جاو کہ اس زیارت میں عبرت اور نصیحتیں موجود ہیں۔ [11]

حضرت امام رضا )ع( فرماتے ہیں: جو بھی مومن بھائی کی قبر کی زیارت کرے گا اور اپنا ہاتھ قبر پر رکھ کر سورہ "انا انزلنا " سات بار قرائت کرے گا خداوند متعال اسکے گناھوں اور صاحب قبر کے گناھوں کو معاف کرتا ہے ، [12]

لیکن پیغمبر اکرم )ص(  اور ائمہ معصومین  کی زیارت کے بارے میں اورجو اثرات ان زیارتوں سے ہوتے ہیں اس کے بارے میں بہت سی روایات مشہور ہیں من جملہ وہ سوال جو حضرت امام حسین )ع( نے آنحضرت )ع( سے کیا کہ آپ کی زیارت کا اجر کتنا ہے ، آنحضرت )ص( نے فرمایا: جو بھی میری یا تمہارے باپ یا تمہارے بھائی یا تمہاری زیارت کرے گا میرے اوپر ہے کہ قیامت کے دن اس کے دیدار کے لیے آوں اور ا س کے گناہ معاف کردوں گا[13]

 یہ مسلمانوں کے قبور کے زیارت کا ایک گوشہ ہے جو ہم نے بیان کیا لیکن دینی اور مذھبی شخصیتوں کے قبور کی زیارت کے بہت سے سماجی اثرات ہیں جن کا ذکر کرنا فائدے سے خالی نہیں ہے،

تھوڑی توجہ کرنے کے بعد ہم مشاھدہ کریں گے کہ جو مقبرے دنیا میں عزت و احترام اور مومنوں اور مسلمانوں کی زیارت کا مرکز ہیں وہ مقبرے بزرگ شخصیات اور عظیمم مصلحوں کے ہیں ان شخصیتوں کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

 ۱۔ انبیاء اور دینی رھبروں جو آسمان رسالت کے حامل تھے  اور انہوں نے اس رسالت کے ابلاغ میں اپنی جان اور مال نچھاور کیا ، اور انسانوں کی ھدایت کے لیے بہت سی دشواریوں اور مشکلات کا سامنا کیا۔

۲۔ دانشور اور مفکر حضرات جو خود شمع کی مانند جلے تا کہ دوسروں کو روشنی بخشیں یہ لوگ اکثر زھد اور مختصر معیشت سے اپنی زندگی گزارتے تھے اس گروہ کی کوششوں کا نتیجہ عظیم اور اھم علمی کاوشیں ہیں۔

 ۳، مجاھدین اور وہ انقلابی شخصیات جو ظالم حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور انسانی حقوق کی حفاظت اور عزت کا نعرہ دیا اور عدل و انصاف کے درخت کو اپنے خون سے سینچا۔

 ان اشخاص کی قبور کی زیارت جن میں سے سب سے پہلے حضرت رسول اکرم )ص( اور ائمہ معصومین)ع(  ہیں ان کی کوششوں اور مجاھدتوں کی نسبت عزت ، احترام اور قدر کرنا نیز اس عزت اور قدر دانی کی ثقافت کو آئندہ نسلوں تک پہنچانا تھا تا کہ وہ لوگ یہ سمجھ  لیں کہ یہ ان کی کوششوں کا دنیاوی صلہ ہے جنہوں نے حق اور ھدایت اصول اقدار اور اعتقادات کی  راہ میں قدم اٹھایا۔ [14]

 بزرگوں اور صالحین کی زیارت میں  ان ہی سماجی اثرات  کے پیش نظر غیر مسلمان قومیں ، اپنے تاریخی اشخاص کے مقبروں کی زیارت کے لیے ایک دوسرے سے مقدم ہوتے ہیں اسی لئے پوری دنیا میں مختلف شخصیات کے مقبروں کو کسی دینی اور دنیاوی امتیازات کے بغیر عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ ہر انسان ایسے افراد کی قبروں کی زیارت اور ان کا احترام کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے جو حق ان کا انسانیت کے اوپر ہے گویا جو بھی انسان ان کی عزت و احترام کے لیے کرتا ہے وہ اس کی فطرت کی آواز ہے۔

پس قبور کی زیارت ان امور میں سے ہے جس کی تائید قرآن ، سنت اور عقل سے حاصل ہے اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ایک فطری بات ہے کیونکہ انسان ہمیشہ انسانوں کی زیارت اور عزت کرنا چاھتا ہے جن کے ساتھ وہ محبت کرتا ہے زیارت قبور کے دنیوی فواید کے علاوہ اخروی فایدے بھی ہیں جو اسلامی تعلیمات کے پھیلنے کے ساتھ ساتھ اور ان تعلیمات کو بہترسمجھ  لینے کے بعد ایک مستحب عمل کے طورپر بیان ہوے ہیں جس کے اخروی فواید ہمیشہ مسلمانوں کے مطمح نظر رہے ہیں اسی لئے اسے جائز اور مستحب جانا گیا ہے۔

عناوین مرتبط

فلسفہ زیارت ائمہ )ع(11978۔  سایٹ نمبر ur11763

ثواب زیارت امام حسین )ع(19778 سایٹ نمبر ur19061

زیارت خانہ خدا اور ائمہ با ارادہ طلبیدن ۔ 12005 سایٹ نمبر ur11809

 


[1]  صدوق ، محمد بن علی من لا یحضرہ الفقیہ ج ۱، ص ۱۷۸ ، موسسہ نشر اسلامی ، قم ، طبع سوم ، ۱۴۱۳۔ھ

[2]  سورہ کہف / ۲۱۔

[3]  سبحانی ، جعفری ، الوھابیۃ فی المیزان، ص ۹۶۔

[4]  احسایی ، محمد بن علی ، عوالی اللالی ، ج ۱، ص ۴۵، انتشارات سید الشھداء علیہ السلام ، قم ، طبع اول ۱۴۰۵ھ۔

[5]  الوھابیۃ فی المیزان، ص ۹۶

[6]  ابن سعد الطبقات الکبری ، ج ۱۔، ص ۹۴، بیروت دار الکتب العلمیۃ ، طبع اول ۱۴۱۰ھ

[7]  صالحی ، شامی  سبل الھدی ، ج ۸، ص ۳۸۴۔ بیروت دار الکتب العلمیۃ طبع اول ، ۱۴۱۴ھ

[8]  سبحانی جعفری ، فی الظلال  التوحید ، ص ۲۴۱

[9]  سبحانی جعفر فی الظلال التوحید ، ص ۲۴۴۔

[10]  مجلسی ، محمد باقر، بحار الانوار ج ۷۹، ص ۱۶۹، موسسہ الوفاء ، بیروت، لبنان، طبع چہارم ، ۱۴۰۴ھ

[11] فیض کاشانی ، ملا محسن ، المحجۃ البیضاء ج۹، ص ۲۸۹ نشر اسلامی ، طبع چہارم ۱۴۱۷۔

[12]  عطاردی ، عزیز اللہ ، مسند الامام الرضا ، علیہ السلام ، ج ۲، ص ۲۵۴،آستان قدس  رضوی ، مشھد، چاپ اول ۱۴۰۶ ھ

[13]  صدوق محمد بن علی ، من لا یحضرہ الفقیہ ج ۲، ص ۵۷۷ موسسہ النشر الاسلامی ، قم ، چاپ سوم ۱۴۱۳ق۔

[14] الوھابیۃ فی المیزان ، ص ۱۰۳

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا