اعلی درجے کی تلاش
کا
10451
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2013/12/25
سوال کا خلاصہ
نذر صحیح ھونے کا صیغہ اور شرائط کیا ہیں؟ کیا نا بالغ کا نذرماننا صحیح ہے یا نہیں؟
سوال
صحیح نذر منعقد ھونے کے لئے ہمیں کیا کہنا چاہئے؟ کیا بالغ ھونے سے پہلے نذر ماننا صحیح ہے؟
ایک مختصر
نذر کے معنی یہ ہیں کہ انسان نیک کاموں میں سے کسی کام کو خدا کے لئے بجالانے کا متعہد ھوجائے، یا کسی ایسے کام کو ترک کردے، جسے ترک کرنا اچھا ھو۔[1]
نذرکی قسمیں:
نذر دوقسم کی ھوتی ہے:
١۔ مشرط نذر: مشروط نذر یا “نذرشکر” ہے، مثال کے طور پر انسان کہتا ہے:“ اگر میرے بیمار نے شفا پائی، تو مجھ پر ہے کہ خدا کے لئے فلاں کام انجام دوں”۔
یا“ نذر زجر” ہے، مثال کے طور پر کہے:“ اگر میں فلاں برے کام کا مرتکب ھوا تو مجھ پر ہے کہ خدا کے لئے فلاں نیک کام انجام دوں”۔
۲۔ مطلق نذر: وہ نذر ہے کہ انسان کسی قید و شرط کے بغیر کہے کہ میں خدا کے لئے نذر مانتا ھوں، یا خدا کے لئے مجھ پر ہے کہ فلاں نیک کام انجام دوں یا فلاں برا کام ترک کروں۔[2]
نذر کے ارکان:
نذر کے ارکان تین چیزیں ہیں: ١۔ ناذر﴿نذر ماننے والا﴾ ۲۔ صیغہ نذر ۳۔ متعلق نذر﴿ملتزم بہ﴾[3]، یعنی نذر منعقد ھونے کے لئے نذر ماننے والا ھونا چاہئے کہ نذر ماننے کے شرائط رکھتا ھو، اسی طرح صیغہ نذر جاری کیا جانا چاہئے اور نذر کسی کام کو بجا لانے یا ترک کرنے سے متعلق ھو کہ اس کے شرائط بیان کئے جائیں گے۔
ناذر ﴿نذر ماننے والے﴾ کے شرائط:
١۔ بلوغ  ۲۔ عقل  ۳۔اختیار  ۴۔ قصد  ۵۔ متعلق نذر کا محجور نہ ھونا[4]، بعض فقہا اسلام و حریت[5] کو بھی شرائط نذر کنندہ میں شمار کرتے ہیں۔[6]
اس بنا پر بچہ کا نذر ماننا، اگر چہ وہ ممیز اور دس سال کا بھی ھو، اور اس طرح دیوانہ کا دیوانگی کی حالت میں نذر ماننا اور مست انسان یا غضبناک انسان کا نذر ماننا،نذر منعقد نہیں ھوگا اور صحیح نہیں ہے۔ البتہ محجور کا نذر ماننا اس مال میں جو قرضداروں کا حق ھو، منعقد نہیں ھوتا ہے، لیکن دوسرے اموال میں صحیح ہے۔[7]
اسی طرح غلام اور کافر کا نذر منعقد نہیں ھوتا ہے مگر یہ کہ غلام ھونے کی صورت میں نذر واقع ھونے سے پہلے مالک اسے اجازت دیدے یا غلام عقد منحل ھونے سے پہلے مالک کے توسط سے آزاد ھو جائے اور اس طرح کافر مسلمان ھو جائے تو مستحب ہے کہ نذر پر عمل کرے۔[8]
صیغہ نذر:
صیغہ نذر، یوں ہے: “للہ علی ھکذا” اور ھکذا سے مراد یہ ہے کہ جس چیز کو نذر ماننا چاہتا ہے، اسے “ للہ علی” کے بعد کہے۔[9] مثال کے طور پر کہے: “ ان شفى اللّه مریضى فللّه على صوم یوم”، یعنی اگر خداوند متعال میرے بیمار کو شفا بخشے تو ایک دن کا روزہ رکھنا میرے ذمہ ھوگا۔[10]
قابل بیان ہے کہ صیغہ نذر کو عربی میں پڑھنا ضروری نہیں ہے، بلکہ فارسی اور کسی دوسری زبان میں پڑھنا بھی کافی ہے، پس اگر کہا جائے:“ چنانچہ میرا بیمار صحت یاب ھو جائے، تو خدا کے لئے مجھ پر ہے کہ دس روپئے کسی محتاج اور فقیر کو دیدوں یا ایک دن روزہ رکھوں”۔ تو نذر صحیح ہے، البتہ لفظ “ خدا کے لئے”[11] کو زبان پر جاری کرنا چاہئے اور اس کا صرف دل میں قصد و نیت کرنا کافی نہیں ہے۔[12]و[13]
متعلق نذر یا “ ملتزم بہ” اور اس کے شرائط:
“ متعلق نذر” یا “ ملتزم بہ” سے مراد وہ چیز ہے کہ نذر کرنے والا اسے خدا کے لئے انجام دینے یا ترکیب کرنے کا متعہد ھوتا ہے۔
متعلق نذر کے شرائط:
١۔ متعلق نذر ایسی چیز ھونی چاہئے کہ اس کے لئے قصد قربت کی ضرورت ھو، یعنی واجب یا مستحب ھو۔ یا کوئی مباح امر ھونا چاہئے [14] کہ دین یا دنیا میں رحجان و برتری کا مالک ھو۔ اس بنا پر حرام یا مکروہ امر متعلق نذر قرار نہیں پاسکتا ہے۔[15]
۲۔ مقصود و مورد ارادہ ھونا چائیے ۔
۳۔ نذر ماننے والے کے کنٹرول میں ھونا چاہئیے، یعنی متعلق نذر ایسا ھونا چاہئیے کہ عادت اور معمول کے مطابق نذر ماننے والا وقت پہنچنے پر اسے انجام دے سکے، اگر چہ نذر منعقد کرتے وقت اسے انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ھو۔[16]
پس مذکورہ سوال کے بارے میں کہنا چاہئیے کہ: نذر بالغ ھونے سے پہلے منعقد نہیں ھوتا ہے اور صحیح نہیں ہے، کیونکہ نذر کے صحیح اور منعقد ھونے کے شرائط میں سے ایک، نذر ماننے والے کا بالغ ھونا ہے”۔
 

[1] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، رسالة توضیح المسائل، ص 445، انتشارات مدرسه امام علی بن ابی طالب(ع)، قم، طبع دوم، 1424ق.
[2]  ۔ایضا
[3]  ۔ حلّى، علامه، حسن بن يوسف بن مطهر اسدى‌، إرشاد الأذهان إلى أحكام الإيمان، محقق و مصحح: فارس حسون‌، ج 2، ص 90،‌ دفتر انتشارات اسلامى، قم، طبع اول، 1410 ق.
[4]  ۔ امام خمینی، تحریر الوسیلة، ج 2، ص 117، مؤسسه مطبوعات دار العلم، قم، طبع اول، بی‌تا؛ گلپايگانى، صافی، لطف الله‌، هداية العباد، ج 2، ص 247،‌ دار القرآن الكريم‌، قم، چاپ اول، 1416 ق‌؛  خراسانى، وحید، حسين،‌ منهاج الصالحين، ج 3، ص 361،‌ مدرسه امام باقر(ع)، قم، طبع پنجم، 1428 ق.
[5]  ۔ بندہ اور کنیز نہ ھو۔
[6]  ۔ عاملى، شهيد ثانى، زين الدين بن على، الروضة البهية في شرح اللمعة الدمشقية، شارح: كلانتر، سيد محمد، ج 3، ص 35، كتابفروشى داورى‌، قم، طبع اول، 1410 ق.‌
[7]  ۔ تحرير الوسيلة، همان؛ هداية العباد، همان‌؛ خراسانى، وحید، حسين،‌ منهاج الصالحين، ایضا ۔
[8]  الروضة البهية، ج 3، ص 35 – 36.
[9]  بهبهانی کرمانشاهی، آقا محمد علی، مقامع الفضل، ج 1، ص 346، مؤسسه علامه مجدد وحید بهبهانی، قم، طبع اول، 1421ق.
[10]  اصفهانی (مجلسی اول)، محمد تقی، یک دوره فقه کامل فارسی، ص 172، مؤسسه و انتشارات فراهانی، تهران، طبع اول، 1400ق.
[11]۔ با غیر فارسی زبانوں کا ہر وہ لفظ جو “ للہ” کے معنی رکھتا ھو۔
[12]  ۔ فاضل لنکرانى، محمد‌، رساله توضیح المسائل‌، ص 483، قم، طبع صد و چهاردهم، 1426 ق.
[13]  ۔اقتباس از پاسخ، ۳۷۷۵۸.
[14]  ۔البتہ ان مباحات میں سے بعض برتری کے لحاظ سے مستحب شمار کئے جاتے ہیں لیکنقصد قربت کی ضرورت نہیں ہے، مثال کے طورپر نماز پڑھنے کے لئے پیاس بجھانے کے لئے پانی پینا۔
[15]  ۔ الروضة البهية، ج ‌3، ص 41 - 43‌.
[16]  ۔ إرشاد الأذهان إلى أحكام الإيمان، ج 2، ص 90.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا