اعلی درجے کی تلاش
کا
9496
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2015/05/16
سوال کا خلاصہ
پیغمبر اکرم (ص) نے قمری مہینوں میں سے کس دن باغ فدک، حضرت زہراء (ع) کو، بخش دیا ہے؟
سوال
پیغمبر اکرم (ص) نے قمری مہینوں میں سے کس دن باغ فدک، حضرت زہراء (ع) کو عطا کیا ہے؟
ایک مختصر
تاریخی اور حدیثی منابع میں جستجو کرنے کے بعد جمعرات کے دن رسول اکرم (ص) کے توسط سے فدک، حضرت زہراء (س) کو بخش دیا جانا ثابت نہ ہوسکا، اسی طرح دوسرے تاریخی حوادث کے واقع ہونے کا دقیق دن، تاریخ میں درج نہیں ہوا ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ واقعات غیر مستند یا حقیقت کے خلاف تھے۔
جو کچھ حدیث کے منابع میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ: آیہ شریفہ: " اور دیکھو! قرابتداروں کو اور مسکینوں کو اور مسافر غربت زدہ کو اس کا حق دیدو اور خبردار اسراف سے کام نہ لینا ۔"[1] نازل ہونے کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے فدک حضرت زہراء (ع) کو بخش دیا ہے۔[2]
اسی طرح ایک اور روایت میں امام صادق (ع) سے نقل کیا گیا ہے کہ:" پیغمبر اکرم (ص) فدک کو فتح کرنے کے بعد مدینہ میں داخل ہوکر فاطمہ زہراء (س) کے پاس گئے اور فرمایا:" بیٹی! خدا نے فدک تیرے باپ کو عطا کیا ہے اور اسے آپ کے باپ سے مخصوص کیا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کو اس پر کوئی حق نہیں ہے اور میں اس کے بارے میں جو چاہوں کرسکتا ہوں۔ تمہاری ماں خدیجہ (س) کا مہر مجھ پر ہے اور تمھارا باپ فدک کو اس کے بدلے میں تجھے عطا کرتا ہے اور میں اسے تجھے اور تیری اولاد کو بخشتا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم (ص) نے ایک پوست (کھال) کا مطالبہ کیا اور علی بن ابیطالب کو بلاکر ان سے فرمایا کہ: فاطمہ کے لئے فدک کو اس پر لکھنا کہ میں نے اسے بخش دیا ہے تاکہ رسول خدا (ص) کی طرف سے اس کے لئے ایک بخشش ہو، علی بن ابیطالب، رسول خدا کے غلام اور ام ایمن کو گواہ بنا دیا اورفرمایا:" ام ایمن بہشت کی ایک عورت ہے۔"[3]
البتہ مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ بعض روایات سے استفادہ کرکے،[4] کوشش کی گئی ہے تاکہ اس واقعہ کا خاص دن مشخص ہوجائے، لیکن مذکورہ روایتیں حضرت زہراء (س) کی ازدواج سے متعلق ھیں اور فدک کے موضوع سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
فدک کی تاریخی بحث کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے ہماری اسی سائٹ کے مندرجہ ذیل عناوین کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔
1. «امام علی (ع) و فدک»، سؤال 18801.
 

[1]۔ «وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ وَ الْمِسْكینَ وَ ابْنَ السَّبیلِ وَ لا تُبَذِّرْ تَبْذیراً»؛ اسراء، 26.
[2]۔ ، ص 287،‏ المطبعة العلمیة، تهران، طبع اول، 1380ق؛ طبرى آملى كبیر، محمد بن جریر بن رستم، المسترشد فی إمامة علی بن أبی طالب علیه السلام، محقق و مصحح: محمودى، احمد، ص 501 و 502، كوشانپور، قم، چاپ: اول، 1415 ق؛ فرات كوفى، ابوالقاسم فرات بن ابراهیم، تفسیر فرات الكوفى، تحقیق: محمودی، محمد كاظم، ص 239 و 240، سازمان چاپ و انتشارات وزارت ارشاد اسلامى، تهران، طبع اول، 1410ق.
[3]۔ قطب الدین راوندى، سعید بن هبة الله، الخرائج و الجرائح، ج 1، ص 112 و 113، مؤسسه امام مهدى عجل الله تعالى فرجه الشریف، قم، طبع اول، 1409ق؛ مجلسى، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 29، ص 114 – 116، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، طبع دوم، 1403ق.
[4]۔ شيخ مفيد، مسار الشيعة، ص 58، كنگره شيخ مفيد، قم، طبع اول، 1413ق: «و فی يوم النصف منه لخمسة أشهر من الهجرة عقد رسول الله(ص) لأمير المؤمنين علی(ع) على ابنته فاطمة(ع) عقدة النكاح و كان فيه الإشهاد له و لها الإملاک‏»؛ كفعمى، ابراهيم بن على، المصباح (جنة الأمان الواقية و جنة الإيمان الباقية)، ص 512، دار الرضی (زاهدی)، قم، طبع دوم، 1405ق؛ بحار الأنوار، ج 95، ص 188: «... و يوم الرابع عشر من ذی الحجة إملاک الزهراء(ع)‏...».
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا