Please Wait
9831
اس سوال کے جواب میں کهنا چاهئیے که: بنیادی طور پر قرآن مجید کے سوروں کی ترتیب کا اجتهاد میں کوئی رول نهیں هے اور اس قسم کا کوئی مسئله نهیں هے جس کے بارے میں سوروں کی ترتیب کے لحاظ سے کوئی فقهی نکته استنباط کیا جائے- اور اسی طرح جن آیات کے درمیان معنی کا رابطه موجود نه هو، وه فقیه کے اجتهاد میں کوئی اثر نهیں رکھتی هیں- اس لحاظ سے ایک فقیه اپنے کلامی مبنیٰ میں ان دو مطالب کے ثابت هوئے کا محتاج نهیں هے[1]-
جو چیز فقیه کے لئے ضروری هے، وه اس بات کا ثبوت هے که قرآن مجید کا مفهوم، الفاظ، آیات کو تشکیل دینے والے الفاظ اور آپس میں مربوط آیات کے مجموعے ، الله کی طرف سے هیں اور وحی پر مشتمل هیں[2] اور اسے قرآن مجید کی بلاغت کے معجزه سے ثابت کیا جا سکتا هے، کیونکه بلاغت صرف لفظ تک محدود نهیں هے، بلکه لفظ و معنی، دونوں اس میں اثر رکھتے هیں- بنیادی طور پر صحیح مفهوم معنی اور کلام میں تسلسل کے بغیر فصاحت و بلاغت بے معنی هے-
دوسری جانب، قرآن مجید کی آیات کے جدا جدا اور جا بجا هونے کے نتیجه میں بعض معنی کے نابود هونے کا امکان---- مثلاً ایک قرینه و سیاق جو ایک خاص معنی پر دلالت کرتا تھا، آیات کے جابجا هونے کے نتیجه میں نابود هو چکا هو---- مجتهد کی نظر میں معدوم هے- کیونکه---- اپنی جگه پر بیان کئے گئے دلائل کی بناء پر---- قرآن مجید هر قسم کی تحریف سے محفوط هے-
بهرحال اگر فقیه احتمال دے که کسی آیت میں کمی بیشی واقع هوئی هے، یا آیات میں مقدم موخر هوا هے اور یه تبدیلی معنی پر اثر انداز ثابت هوئی هے، تو وه یه نهیں کهه سکتا هے که: میں ظاهر پر مامور هوں، کیونکه اس قسم کا احتمال قرآن مجید کی حجیت ظاهری کو مشکوک کر کے رکھه دیتا هے- اس لحاظ سے عقل یه قبول نهیں کرتی هے که ممکن هے قرآن مجید کی آیات یا ان کی ترکیب یا ایک مطلب سے مربوط آیات کا مجموعه، غیر خدا سے صادر هوا هو، کیونکه اس صورت میں قرآن مجید میں تحریف لازم آئے گی جو صحیح نهیں هے- ان اوصاف کے پیش نظر قرآن مجید کے خداوند متعال کی طرف سے نازل هونے کو عقل سے استناد کیا جا سکتا هے-
اس لئے اس احتمال کو قبول کرنا که قرآن مجید کے الفاظ یا ان کی ترکیب اور حتی که قرآن مجید کے هم سیاق آیات کے مجموعے غیر خدا سے هوں، قرآن مجید کو حجیت سے گرا دیتا هے- شاید اخباریوں کی طرف سے ظاهر قرآن کو حجت نه جاننا، ان کے قرآن میں کمی یا آیات کی جابجائی کا اعتقاد تھا- البته جو کام انهوں نے کیا هے، وه نه صرف دین کا دفاع نهیں تھا، بلکه ایک قسم کی پسپائی هے- ان کی سب سے بڑی غلطی یه تھی که وه خیال کرتے تھے که اگر وه قرآن مجید کو چھوڑ دیں گے تو انهوں نے دین کی خدمت کی هے، لیکن انهوں نے اس کام کے ذریعه دین کی سب سے بڑی سند کو اور درحقیقت تمام دین کو مشکوک بنا دیا هے[3]-
اس موضوع کے سلسله میں مزید مطالعه کے لئے مندرجه ذیل منابع کی طرف رجوع کیا جا سکتا هے:
" مبانی کلامی اجتهاد" ، تالیف: هادوی تهرانی، موسسه فرھنگی خانه خرد، قم، طبع اول ۱۳۷۷ ھ
[1] مذکوره کلام کے معنی یه هیں که یه ثابت نهیں کیا جا سکتا هے که قرآن مجید رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه میں جمع کیا گیا هے- بلکه بات یه هے که اس مطلب کا فقیه کے کام میں کوئی رول نهیں هے اور یه مبانی کلامی اجتهاد میں شمار نهیں هوتا هے- جیسا که بیان کیا گیا، بهت سے شیعه علماء کا کهنا هے که تاریخی دلائل سے معلوم هوتا هے که قرآن مجید رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه میں جمع اور مرتب کیا گیا هے- اس کے علاوه اگر هم قرآن مجید کے سوروں اور آیتوں کی ترتیب میں ایسے نکات پیدا کر سکیں، جن کا نظم بگڑنے کی صورت میں وه نکات ختم هو جائیں، مثال کے طور پر سوروں اور آیات کے درمیان عددی روابط، یا قرآن مجید کے مجموعه میں ایک خاص تسلسل کو پیدا کر سکیں، تو اس مطلب کو ثابت کرنے کے لئے تاریخی دلائل کی ضرورت نهیں هے، بلکه عقل کهتی هے که یه سب نظم و ترتیب خدا کی طرف سے حاصل هوئے هیں-
[2] تمام آیات کا آپس میں مربوط هونے اور وحی پر مشتمل هونے کو "قرینه سیاقیه" کهتے هیں، جس پر اختلاف پایا جاتا هے-
[3] هادوی تهرانی، مھدی، مبانی کلامی اجتهاد۔ ص ۵۷-۵۶