Please Wait
7298
اجمالی جواب:
١- عصمت کا مطلب یه هے که: معصوم انسان کے اندر ایسے امر کا موجود هو نا، جو اسے خطا اور معصیت سے دو چار هو نے سے بچانے کا سبب بنے – یه امر معصوم کے گناه کے برے اثرات کے بارے میں آگاهی کا نتیجه هو تا هے – یا عصمت ،ایک ایسی چیز هے، جو انسان کو خدا وند متعال کی معرفت حاصل کر نے کا مرتبه بلند هو نے کے نتیجه میں اور حق کے جمال و کمال کی نسبت اس کی محبت اور اپنے معبود کے ساتھـ عشق ومحبت اور خدا وند متعال کے جمال و جلال کو ادراک کر نے کے نتیجه میں حاصل هو تی هے-
٢-عصمت کی دو قسمیں هیں:علمی عصمت اور عملی عصمت- دونوں قسمیں ذاتی اور حقیقی طور پر ایک دوسرے سے جدا هیں ، لیکن انبیائے الهی ، عصمت کی ان دونوں قسموں کے مالک هو تے هین ،یعنی ان کا کردار بھی صالح اور حقیقت کے مطابق هو تا هے اور ان کے علم و دانش کا سر چشمه بھی صحیح اور هر قسم کی غلطی اور سهو ونسیان سے پاک هو تا هے-
٣-اول یه که عصمت کا مقام ایک ذاتی اور محدود مقام نهیں هے ، یعنی انسانوں کے بارے میں یه ایک اکتسابی مقام هے اور اس مقام تک پهنچنے کے لئے کافی پریشانی اور جدو جهد کی ضرورت هو تی هے - دوسرے یه که دین کے پیشواٶں کے علاوه دوسرے لوگ بھی اس مقام پر فائز هو سکتے هیں لیکن اس کے کلیدی عهدے، جیسے نبوت و امامت کے مقام تک پهنچنا محدود اور منحصر هے، یعنی هر معصوم ان مقامات تک نهیں پهنچ سکتا هے-
٤- ایک معصوم کے اجر کے بارے میں سوال کر نے کا سبب یه هے که، گمان کیا گیا هے که چونکه عصمت کا مقام لطف و مهر بانی پر مشتمل مقام هے ، اس لئے معصوم ذاتی طور پر گناه سے منزه هے اور قاعدتاً اس کے لئے کوئی ثواب نهیں هو نا چاهئے کیو نکه معصوم خدا کے نزدیک فرشتوں کے مقام کے مانند گناه کی طرف رجحان نهیں رکھتا هے – لیکن اس امر کی طرف تو جه کی جانی چاهئے که اگر چه عصمت کا مقام ایک ذاتی مقام نهیں هے ، ایک معصوم سے گناه صادر هو نا بھی ذاتی طور پر محال نهیں هے ، معصومین انسان هیں نه که ملا ئکه کی ایک قسم اور اگر وه گناه نهیں کرتے هیں تو وه ان کے اپنے اختیار کے سبب هے اور یه بھی ان کے ایمان اور مکمل یقین کی وجه سے هے جو کامل انسانوں میں ذات اقد س باری تعالی اور عالم غیب کے بارے میں پایا جاتا هے ، جس کی وجه سے وه گناه اور معصیت سے اجتناب کرتے هیں ، حتی که وه اپنی فکر و تصور میں بهی گناه و معصیت کو راه نهیں دیتے هیں ، کیو نکه ایک معصوم گناه کی برائی کو مکمل طور پر ادراک کر تا هے – پس قاعده سے ایک معصوم انسان اپنے اعمال کے مقابل میں اور محر مات سے اپنے نفس کو بچانے کے سلسله میں خدا کے پاس اجر رکھتا هے ، جس طرح ایک غیر معصوم گناه نه کر نے کے سبب اجر پاتا هے اور ممکن هے که ایک معصوم کے گناه نه کر نے کا اجر زیاده هو ، کیو نکه وه اس عزت نفس سے دو کام انجام دیتا هے :ایک یه که خود کو گناه سے محفوظ رکھـ کر معصیت سے دو چار نهیں هو تا هے اور دوسرا یه که اپنے مقام و عهده کی قدر و منزلت کی حفاظت کرتا هے اور نبوت و امامت کے مقام کی بے احترامی نهیں کر تا هے – بالفرض اگر کوئی معصوم مرتکب گناه هو جائے ، تو اس کا گناه دوگنا بلکه کئی گنا محسوب هو گا، کیونکه اول یه که وه گناه کا مرتکب هوا هے، دوسرے یه که اس نے مقام الهی کا پاس نهیں کیا هے- بهر حال معصوم کے خدا کے پاس اجر حاصل کر نے میں کوئی ممانعت لازم نهیں هے-
جواب کی وضاحت سے پهلے عصمت کی حقیقت سے آگاه هو ناضروری هے[1]،تاکه معصوم افراد میں گناه کے مقابل میں عصمت کو جان لیا جائے – علامه طباطبائی فر ماتے هیں:" "عصمت" سے مراد معصوم انسان کے اندر ایک امر کا وجود هے جو اسے ناجائز (خطا ومعصیت) سے دوچار هو نے سے بچانے کا سبب بن جاتا هے- [2] " البته ان کی نظر میں ، انبیائے الهی ( اور تمام اولیا اور خاص هدایت یافته افراد) عصمت مطلق کے حامل هوتے هیں اور اشتباه (خطا) سے عصمت کے بهت سارے مصادیق هیں جو عصمت کے تمام اقسام پر مشتمل هو سکتے هیں – لیکن چونکه صرف گناهوں کے مقابل میں عصمت کے بارے میں سوال کیا گیا هے ، اس لئے هم عصمت کے تمام پھلوؤں اور قسموں کی وضاحت کر نے سے اجتناب کر تے هیں اور اس سلسله میں تفصیلات حاصل کر نے کی دلچسپی رکھنے والوں کو متعلقه کتا بوں کا مطالعه کر نے کی رائے دیتے هیں –[3]ان کی نظر میں "عصمت" گناه کے نتائج کے بارے میں معصوم کے علم و آگاهی کا نتیجه هے ، یعنی گناهوں کے آثار کے بارے میں معصومین کا علم وشعور اس طرح هو تا هے که کوئی بھی گناه ان کو مغلوب نهیں کر سکتا هے بلکه وه تمام گناهوں پر غالب هو تے هیں-[4]
عصمت کے بارے میں ایک دوسرے نظریه کے مطابق کها جاتا هے که: معصوم، خداوند متعال کی معرفت کے سلسله میں بلند مرتبه پر فائز هو نے اور حق تعالی کے جمال و کمال سے محبت کے سبب اپنے آپ کو اس بات کی اجازت نهیں دیتا هے که وه خدا وند متعال کی مرضی کے خلاف کوئی اقدام کرے، اس کے علاوه اپنے معبود کے بارے میں عشق ومحبت اور اس کے جمال و جلال کا ادراک کرنا اور اس کے حق میں اس کی لامتناهی نعمتوں سے آگاهی ، اس کی روح میں اس قدر خضوع و فروتنی پیدا کرتی هے که وه کبھی گناه کا تصور بھی نهیں کرتا هے، گناه انجام دینے کی بات هی نهیں ![5]
ان دو نظریوں کا ماحصل یه هے که معصوم کے وجود میں ایک ملکه پیدا هو تا هے ، جو اس کی زندگی سے گناه، گستاخی اور برے کام کو ھمیشه دور کرتا رهتا هے اور اسے گناه اور لغزشوں سے محفوظ رکھتا هے-
عصمت کی قسمیں:عصمت کی دو قسمیں هیں:عصمت علمی اور عصمت عملی – یه دوقسمیں ذاتی اور حقیقی طور پر ایک دوسر سے جدا هیں – ممکن هے کوئی شخص علمی ملکه میں معصوم هو،[6]لیکن عملی ملکه میں معصوم نه هو اور اس کے بر عکس بھی لیکن جو عصمت انبیائے الهی میں پائی جاتی هے وه عصمت کی دونوں قسموں پر مشتمل هو تی هے اور انبیا علم و عمل میں معصوم هوتے هیں ، یعنی ان کا کردار بھی صالح اور حقیقت کے مطابق هو تا هے ، اور ان کا علم بھی صحیح اور ایک ایسے سر چشمه سے تعلق رکھتا هے ، جس میں کسی قسم کے اشتباه ، سهو و خطا اور بھول چوک نهیں هے، کیونکه وه عقل مجرد ، شهود محض اور صحیح کشف کے ایک ایسے مر حله پر پهنچا هو تا هے که جس میں وهم و گمان بھی عقل کے تابع هو تا هے اور اس مر حله میں کسی صورت میں شیطانی وسوسےاس میں نفوذ نهیں کر سکتے هیں کیونکه جهالت ،نادانی ، شیطنتیں اور توهمات کا انحصار وهم وگمان پر هو تا هے اور بے شک وهم وگمان کا دائره عمل مادی دنیا سے وابستگی هے، لیکن خالص عقل کے حدود میں شیطان اور وهم وگمان کی پهنچ نهیں هوتی هے- لهذا اگر کوئی شخص اتنا بڑھے که که مادی دنیا ، وهم وگمان اور توهمات سے گزر کر حقائق کے سر چشمه تک پهنچ جائے تو وه"عصمت" کے مقام پر فائز هو سکتا هے اور اس کے وجودی شدت کے نتیجه میں اس کانفس ناطقه فرشتوں کے مرتبه یا اس سے بالاتر مرحله سعادت حاصل کر سکتا ھے [7]
عصمت کا ذاتی اور محدود نه هو نا: ایک اور مطلب جس کی طرف توجه کر نا ضروری هے وه یه که "عصمت" کا ملکه اگرچه خداوند متعال کی طرف سے حاصل هو نے والی مهر بانی اور توفیق هے ، لیکن عصمت کا ملکه نه ذاتی هے اور نه محدود، بلکه اختیاری هے اور انبیا کے علاوه ، دوسرے بھی اس ملکه کے حامل هو سکتے هیں ، کیونکه ریاضت ، کوشش اور نفسانی جدوجهد کا راسته سبھوں کے لئے کھلا هےاور ان کا ماحصل عام اور سبهوں کے لئے یکساں هے- جیسا که قرآن مجید فر ماتا هے:"ان تتقوا الله یجعل لکم فر قاناً" [8]"اگر تم تقوی الهی اختیار کرو گے تو وه تمهیں حق و باطل میں تفرقه کی صلاحیت عطا کر دے گا –" تهذ یب نفس، پر هیز گاری ، اعضا و جوارح اور نفسانی خواهشات کی دیکھـ بھا ل اور نگرانی کر نے، حلال غذا کھانے اور محاسبه کرنے اور چوکس رهنے سے انسان علم و عمل میں عصمت کے اس پر شکوه ملکه کو حاصل کر کے آهنی اراده کا مالک بن سکتا هے –
لیکن قابل توجه بات هے که نبوت و امامت کا مقام محدود اور منحصر هے – یعنی هر معصوم اس مقام تک نهیں پهنچ سکتا هے اور خداوند متعال اپنی نمایندگی کے حساس اور کلیدی عهدے هر کسی کو، حتی کھ هر معصوم کو نهیں سونپتا هے-[9]
عصمت کا اکتسابی هو نا: عصمت وثواب کے لطف و مهر بانی پر مبنی نه هو نے کے سلسله میں قابل توجه امر هے که انبیائے الهی ، دینی پیشواٶں اور هر دوسرے معصوم کی عصمت ذاتی نهیں هے ، بلکه اکتسابی هے- اس کا سر چشمه وه مکمل ایمان واعتقاد هے جو کامل انسانوں میں پایا جاتا هے اور وه اپنے آپ کو همیشه خدا کے حضور میں پاتے هیں اور اس کا مشاهده کرتے هیں جو هرچیز کا جاننے والا اور تمام امور کا احاطه کر نے والاهے ، اس لئے معصومین سے گناه کا ارتکاب هو نا ذاتی طور پر ممنو ع نهیں هے، کیو نکه اگر یه ذاتی طور پر ممنو ع اور محال هو تا تو مقدور نهیں هو تا اور اگر مقدور نه هو تا تو تکلیف نهیں بنتا-
اس کے علاوه اگر گناه و معصیت ذاتاً محال هو تو اطاعت و فر مانبرداری ذاتی طور پر ضروری هو گی!اور اس صورت میں اطاعت بھی تکلیف نهیں بنتی اور پھر ڈرانے ، بشارت دینے، وعده اور وعید کی کوئی گنجائش باقی نهیں رهتی ،اسی لئے فرشتے مکلف نهیں هیں ، کیو نکه وه ذاتی عصمت کے مالک هیں ، نه که اختیاری-
لیکن اکتسابی وغیر ذاتی عصمت کے ملکه میں "اختیار" پایا جاتا هے اور فعل کے انجام دینے یا ترک کر نے کو قضیه ممکنه کے طور پر معصوم سے نسبت دی جاسکتی هے ، اگر چه معصوم سے گناه صادر هو نا معمولاً محال هے، لیکن یه ایک بالا ختیار امتناع هے اور اختیار کے منافی نهیں هے – یه سب اس لئے هے که معصوم گناه کی برائی اور انجام کا مشاهده کر تا هے اور اس کا دل و دماغ رحمانی هے، نه کھ شیطانی- [10]
پس ایسا نهیں هے که ایک معصوم گناه کے مرتکب نه هو نے کی وجه سے اجر کا مستحق نه هو، بلکه وه بھی ایک عام انسان هے : " قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی" [11]" اے پیغمبر! کهدو که میں بھی آپ لوگوں کے مانند ایک انسان هوں لیکن مجھـ پر وحی نازل هو تی هے-" فرق صرف اتنا هے که معصوم، خداوند متعال کی عنایات اور مهر بانیوں سے اور ایمان کامل، خدا کے عشق اور بلند مرتبه میں پرهیز گاری کی روشنی میں عصمت کے مقام پر پهنچتا هے – لیکن بهر حال گناه کا اختیار اس سے سلب نهیں هونا هے اور جب چاهے گناه کا مر تکب هو سکتا هے- لیکن اپنے اختیاراور خدا کی مدد حاصل کر کے اپنے آهنی اراده سے اپنے نفس اماره اور شیطان کے مقابل میں مقاومت کر تا هے اور اپنے آپ کو گناه سے آلوده نهیں ھونے دیتا هے اور اپنے نفسانی خواهشات سے اس جد وجهد کے نتیجه میں اجر پاتا هے-
اور ممکن هے که ایک معصوم کی خوبیوں اور گناه نه کر نے کا اجر زیاده هو، کیونکه جن افراد سے زیاده توقع کی جاتی هے ، ان کے توسط سے انجام پائی گئی خوبیوں کے دو نتیجے هو تے هیں : ایک یه که اس نے اپنے نفس سے مجاهده کیا هے اور دوسرے یه که اپنے مقام کی بے احترامی نهیں کی هے اور اپنے عهده اور مقام کو آبرو مندانه طور پر محفوظ رکھا هے – چنانچه اگر معصوم کسی برے عمل کا مر تکب هو جائے تو اس کا گناه دوگنا بلکه کئی گنا محسو ب هو گا – کیو نکه وه اولاً برے عمل کا مرتکب هوا هے اور ثانیاً اپنے الهی مقام کی بے احترامی کا باعث قرار پایا – اس لئے هم قرآن مجید کی آیات میں مشاهده کر تے هیں که انبیا کو شدید انتباه کا سامنا کر نا پڑا هے- مثال کے طور پر خاتم الانبیا حضرت محمد مصطفی صلی الله علیه وآله وسلم سے خطاب هو تا هے : " لئن اشرکت لیحبطن عملک " [12]"اگر تم شرک اختیار کرو گے تو تمهارے تمام اعمال بر باد کر دئے جائیں گے-"
[1] - ملاحظه هو: عنا وین: عصمت انبیا ، سوال 112 ، قرآن مجید میں انبیا کی عصمت وعدم عصمت سے مر بوط آیات، سوال ١٢٩ ، "عام انسانوں کی عصمت" ، سوال ٨٦١-
[2] - طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن ، ج٢،ص ١٣٤ (کلام فی عصمھ الانبیا )
[3] ملاحظه هو:ایضا، ج٢،ص١٣٦- ١٣٤، ج٥، ص ٧٧- ٧٥، جوادی آملی، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن کریم، ج٣،ص٢٩٢-١٩٧- -
[4] - ایضا، ج٥،ص٧٨-
[5] -سبحانی جعفر، منشورجاوید، ج٥،ص١٤-
[6] - قابل ذکر بات هے که اگر چه عملی عصمت دوسروں کے لئے بهی حاصل کرنا ممکن هے
لیکن اکثر علما یه اعتقاد رکھتے هیں که علمی عصمت دوسروں (غیر معصوم) کے لئے ممکن نهیں هے-
[7] - یه مطالب استاد جوادی آملی کے بیانات سے لئے گئے هیں، تفسیر موضوعی قرآن مجید ج٣، ص٢٠٢-١٩٩-
[8] - سوره انفال، ٢٩-
[9] - جوادی آملی ، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن مجید، ج٣،ص٢٠٨-
[10] - جوادی آملی ، عبدالله، تفسیر موضوعی قرآن مجید ج٣، ص ٢٠٨ و ٢٠٩ باتلخیص
اندکی تغییر-
[11] - سوره کهف،١١٠-
[12] - سوره زمر،٦٥-