Please Wait
11678
عقل انسان کی وه گرانقدر طاقت هے جسے الله نے اس کے وجود میں قرار دیا هے اور اسکے چند مراحل و اقسام هیں ۔
1- نظری عقل: اس کا کام واقعیتوں کو پهچان کر ان کے بارے میں فیصله کرنا هے ۔
2- عملی عقل : وه قوت هے جو انسان کی رفتار و کردار کو کنٹرول کرتی هے یا اس کا کام بایدھا و نبایدھا ۔
( جن چیزوں کی ضرورت هے اور جن چیزوں کی ضرورت نهیں هے ) کو درک کرنا هے ؛ حقیقت میں عملی عقل زندگی کے علوم کی بنیاد هے اور عقل عملی میں قضاوت اور فیصله کا مقام یه هے که اس کام کو کروں یا نه کروں ؟
چون که عقل ایک مخلوق هے اور مخلوق محدود هے لهذا یه طبیعی بات هے که اس کا کام لامحدودنهیں هوسکتا،اسی وجه سے عقل کا دائره کار مخلوقات هیں ، اور یه خدا کی شناخت کے بارے میں محدود طاقت کی حامل هے اور خد اکی ذات و حقیقت جو لامحدود هے اس تک رسائی نهیں رکھتی ۔
عقل قانون سازی اور تشریع کے میدان میں کام آسکتی هے اور اسے ﺴﻤﺠﮭ سکتی هے هر چند یه دونوں میدان وحی سے بے نیاز نهیں هوسکتے ۔ عقل معاد کے جزئیات و احکام کے فلسفه جیسے مسائل کو سمجھنے سے قاصر هے اور اس سلسله میں شریعت کی هدایت ضروری هے
لغت میں لفظ عقل اور اس کے مشتقات کے معنی ، سمجھنا ، حاصل کرنا اور قابو میں کرنا هے[1]۔
اور قرآن مجید میں درک و فهم کے معنی میں استعمال هوا هے [2] ، روایات میں انسان کے درک کرنے ، تشخیص دینے ، نیکیوں پر آماده کرنے اور برائیوں و فتنه و فساد سے روکنے کی طاقت کے معنی میں هے [3] ۔
اصطلاح میں عقل وه بسیط جوهر هے جس کے ذریعه لوگ واقعیتوں کا پتا لگاتے هیں لهذا عقل یعنی واقعیت کو معلوم کرنا هے ، حقیقتوں کومعلوم کرنے کے علاوه عقل ، نفس ناطقه کی محافظ اور اسے شرف بخشنے والی بھی هے [4] ۔
عقل کے مختلف اقسام اور درجه هیں :
1. نظری عقل : نظری عقل کے ذریعه انسان ، طبیعت، ریاضیات، منطق و الٰهیات ، خلاصه یه که حکمت نظری سے مربوط وجود و عدم ، تھا یا نه تھا ، هے یا نهیں هے ، جیسے مفاهیم کو سمجھتے اور درک کرتی هے ۔
2. عقل عملی : اس کا تمام ، عزم و اراده ، ایمان اور فیصله کی جگه هے یعنی وه جگه جهاں سے عمل شروع هوتا هے
3. عام عقل : یعنی وه عقل جس کی تمام تر کوشش ظاهری زندگی کا تحفظ هے ، عوام الناس اس طرح کی عملی طاقت کو عقل کهتے هیں [5] ۔
دوسرے لفظوں میں: نظری عقل کاکام واقعیتوں کو درک کرنا اور انھیں پهچان کر ان کے بارے میں فیصله کرنا هے[6]
عملی عقل : اس قوت و طاقت کو کهتے هیں جو انسان کے اعمال وکردار کو کنٹرول کرتی هے [7] ۔ یا اس کا کام (چیزوں کی ضرورت اور عدم ضرورت) کو درک کرنا هے درحقیقت عملی عقل زندگی کے علوم کی بنیاد هے اور عملی عقل کی قضاوت کا مقام یه هے که اس کام کو کروں یا نه کروں ؟[8]
عملی عقل امام جعفر صادق (علیه السلام) کی زبان میں ؛ انسان کی عبودیت کا مرکز اور خداوند عالم سے جنت حاصل کرنے کی پونجی هے ((العقل ما عبد به الرّحمٰن و اکتسب به الجنان))[9]
اسلام کے حیات آخریںمکتب میں عقل کا مقام بهت هی بلند وبرتر هے ، علامه طباطبائی تفسیر المیزان میں لکھتے هیں : انسان کے وجود میں سب سے زیاده شریف قوت عقل هے [10] ۔ خداوند عالم نے قرآن مجید میں انسانوں کو اس خدادادی طاقت سے استفاده کرنے کا حکم تین سو سے زیاده مرتبه دیا هے [11] ۔ علامه کے مطابق تفکر و تعقل کا مرتبه اتنا بلند هے که خداوند عالم نے ایک مرتبه بھی اپنے بندوں کو نه سمجھنے یا اندھی تقلید کا حکم نهیں دیا هے [12] ۔ عقلی و نقلی دلیلوں کی بنیاد پر اس وسیع مخلوقات کے درمیان عقل کی کارکردگی کا میدان عالم طبیعت کے واقعات و حوادث شرعی احکام اور اجمالی طور پر خدا کی شناخت و معرفت هے ۔
یعنی انسان کی عقل میں خدا کی ذات کی شناخت کرنے کی طاقت نهیں هے اس لیئے که هر مخلوق چون که مخلوق و حادث هے لهذا لا محدود و بے نهایت نهیں هو سکتی اور انسان کی عقل چون که خدا کی پیدا کی هوئی مخلوق هے لهذا محدود هے اور محدود، لامحدود و بے نهایت (خدا) کو نهیں پهچان سکتی ۔
انسان کی عقل کائنات عالم ، اس میں رونما هونے والے حادثات اور اس کے قوانین کو پهچان سکتی هے اور اس کے بارے میں فیصله بھی کر سکتی هے ۔
احکام کی شناخت کے لیئے بھی علماء عقل پر اعتماد کرتے هیں ، علم فقه میں عقل قرآن و سنت کے همراه احکام کی شناخت کی دلیل کا عنوان قرار پاتی هے ؛ علم اصول میں بھی یه ثابت هے که حسن و قبح عقلی کے باب میں شارع مقدس کے اوامر و نواهی کی اطاعت کا واجب هونا عقل کے حکم سے هے [13] ۔
البته یه بات قابل ذکر هے که اسلام کے دو میدان عقائد (اصول دین) احکام (فروع دین) میں بھی بعض مسائل عقل کی ﺴﻤﺠﻬ سے بالاتر هیں اگر چه عقل ان مسائل کی مخالفت نهیں کرتی لیکن ان کی گهرایئوں تک بھی نهیں پهنچ سکتی اور انھیں درک نهیں کرسکتی جیسے احکام کا فلسفه یا معاد(قیامت) کے جزئی مسائل جس کی تفصیل اس مختصر سے مقاله میں ممکن نهیں هے ۔
علامه طباطبائی ، فرانسوی معترض ((هانری کاربن)) کے اس سوال که آپ اور کتاب و سنت کے درمیان اختلاف کی صورت میں کیا کرتے هیں؟ کے جواب میں فرماتے هیں ؟ جب قرآن نے صراحۃً عقل کے نظریه کی تصدیق کر دی هے تو ان دونوں کے درمیان اختلاف کا سوال هی پیدا نهیں هوتا [14] ۔
اس کے علاوه انبیاء(علیهم السلام) کی رسالے کے سلسله میں امام علی (علیه السلام) کی نهج البلاغه سے یه مطلب نکلتا هے که عقل و شریعت کےدرمیان نه صرف کسی قسم کا تضاد نهیں هے بلکه دونوں ایک دوسرے کی تأئید کرتی هیں ۔((۔ ۔ ۔ ۔ و بشیروا لهم دفائن العقول۔ ۔ ۔ ۔ ))[15] علم کے خزانه ان لوگوں کے لیئے کھول دیں ۔
حضرت علی (علیه السلام) اس کلام میں انبیاء (علیهم السلام) کی بعثت کا فلسفه بیان کرتے هیں که خداوند نے نبیوں (علیهم السلام) کو لوگوں کی طرف بھیجا تا که وه ان کی سوئی هوئی عقل کو بیدار کریں ۔
انسان کی عقل و فطرت اس خزانه کی مانند هے جس میں تمام واقعیتیں اور حقائق موجود هیں اسی لیئے پیغمبر جو ﻜﭽﻬ فرماتے هیں وه عقل و منطق کے مطابق هوتا هے ، اصول فقه میں ایک اصطلاح ((قاعده ملازمه)) هے جس کا کهنا هے که ((کل ما حکم به العقل حکم به الشرع))[16] جس چیز کا عقل حکم کرتی شریعت بھی اس کا حکم کرتی هے اور اس کے برعکس بھی صحیح هے یعنی ((کل ما حکم نه الشرع حکم به العقل))جن چیزوں کا شریعت حکم دیتی هے ان کا عقل بھی حکم دیتی هے اسی وجه سے شرعی احکام کی بنیادوں میں سے ایک عقل هے ۔
لهذا شارع مقدس اور انبیاء (علیهم السلام) کا حکم عقل کے خلاف نهیں هے ۔ وه جو بھی کهتے هیں وه عقلی بات هوتی هے مگر شیطانی وسوسوں کی وجه سے انسان ان سے غافل هو جاتا هے ، انبیاء (علیهم السلام) آئے تا که وه انسانوں کو عقل کے خزانوں کی یاد دهانی کرائیں ۔
نتیجه عقل و شریعت آپس میں هم آهنگ اور ایک دوسرے کے ساﺘﻬ هیں ، شریعت میں کوئی ایسا حکم جو حقیقت میں عقل کے خلاف هو موجود نهیں هے اسی لیئے انسان هر چیز کو قبول کرنے کے لیئے دلیل تلاش کرتا هے جو اسے مطمئن کر سکے اور جب بھی کوئی حقیقت دلیل کے ذریعه واضح و روشن هوجاتی هے اسے وه قبول کرلیتا هے ۔ اسی حد تک ؛ یعنی کائنات اور اس کے حوادث ، دنیا پر حاکم قوانین اور شرعی احکام عقل کے قبضه قدرت میں هیں تا که ان کے بارے میں غور کرکے فیصله کرے ، لیکن خدا کی معرفت اور اس کی حقیقت سے آشنائی کے سلسله میں عقل کی کارکردگی محدود هے اور وه اس کی کام حقه شناخت سے قاصر هے ۔
امام علی (علیه السلام) اس سلسله میں فرماتے هیں )) ۔ ۔ ۔ لم یطلع العقول علی تحدید صفته۔ ۔ ۔)) 17
خداوند عالم کے صفات تک عقل کی رسائی نهیں هے ۔ ۔ ۔) چون که خدا کے صفات بنفسه اس کی ذات هیں اور خدا کی ذات لا متناهی هیں ۔ انسان کی عقل ان کی گهرایئوں تک نهیں پهنچ سکتی اور نه هی ان کی حد کو ﺴﻤﺠﮭ سکتی هے دوسرے الفاظ میں یوں کهیں : جب انسان ایک لامتناهی ذات کی مخلوق هے تو وه اس لامتناهی ذات کا احاطه نهیں کرسکتا ، یهی معنی مولا علی (علیه السلام) کے اس قول کا هے که آپ (علیه السلام) فرماتے هیں : خداوند عالم نے انسانوں کی عقل کو اپنے صفات کی گهرائیوں سے آشنا نهیں کرایا هے البته اس کے معنی یه نهیں که خدا نے اپنی شناخت و معرفت سے انسانوں کو منع کیا هے اس لیئے که آپ (علیه السلام) خطبه جاری رکھتے هوئے فرماتے هیں :(( و لم یحجبھا عن واجب معرفته ،18 خدا نے اپنی معرفت کا ،عقل پر پرده نهیں ڈالا هے ، مطلب یه که خداوند عالم نے انسان کو اپنی معرفت سے منع نهیں کیا هے ۔
امام صادق(علیه السلام) فرماتے هیں :(( ۔ ۔ ۔ فبالعقل عرف العباد خالقھم و انّھم مخلقون و انّه المدبر انّھم المدبرون و انّه الباقی و انّھم فانون))19 ۔ ۔ ۔ اور عقل کے ذریعه خدا کے بندے اپنے خالق کو پهنچانتے هیں اور یه جانتے هیں که وه مخلوق هیں وه (خدا) مدبر هے اور یه اس کی تدبیر کے ماتحت هیں اور یه که ان خالق همیشه باقی رهنے والا هے اور یه فانی هیں ۔ ۔ ۔
انسان کی عقل اتنا سمجھتی هے که اس دینا میں کوئی خدا هے جو صفات ثبوتیه و صفات سلبیه رکھتا هے جو علم، قدرت اورحیات وغیره کا مالک هے اس حد تک پهچاننا عقل کا کام هے جو اس کے بس میں هے اور اس حد تک خداوند عالم نے عقل کو منع بھی نهیں کیا هے ۔ مگر اس سے بڑھ کر خداوند عالم کی ذات و صفات کی گهرائیوں کی معرفت عقل کے بس میں نهیں هے اور عقل اس کی شناخت سے عاجز هے ۔
[1] معین ، محمد، فرهنگ معین،(ایک جلدی) لفظ عقل۔
[2] سجادی ،سید جعفر ، فرهنگ علوم فلسفی و کلامی ، ماده عقل ۔
[3] کلینی اصول کافی ، ج 1 ،ص 11
[4] کرجی ، علی ، اصطلاحات فلسفی و تفاوت آنها با یکدیگر ، صص172-171
[5] جوادی آملی ، عبد الله ،فطرت در قرآن ، ج 12 ، ص12-29-30-397
[6] شهید مطهری ، ده گفتار، صص30-31
[7] جوادی آملی ، عبد الله رحیق مختوم ، ج 1 ،بخش اول ، ص 153
[8] شهید مطهری ، ده گفتار ، ص30-31
[9] کلینی اصول کافی ، ج 1 ، ص 11 ، حدیث 3
[10] طباطبائی ، محمد حسین، المیزان ، ج 3 ، ص57 ۔
[11] طباطبائی ، محمد حسین، المیزان ، ج 5 ،ص255 ۔
[12] تفیسی ، شادی ، عقل گرائی در تفاسیر قرن چهاردهم ، صص194-195
[13] ملکی اصفهانی ، مجتبیٰ ، فرهنگ اصطلاحات اصول ، ج 2 ، ص279
[14] کدیور ، محسن ، دفتر عقل ، ص115
[15] نهج البلاغه ، خطبه نمبر1
[16] سبزواری ، سید عبد الاعلیٰ ، تهذیب الاصول ، ج 1 ، ص 145 ؛ مظفر ، محمد رضا ، اصول الفقه ، ج 1 ، ص217
17 نهج البلاغه ، خطبه نمبر49
18 نهج البلاغه ، خطبه نمبر49
19 کلینی ، اصول کافی ، ج 1 ، صص33- 34