Please Wait
12162
مسلمانوں میں مختلف مذاهب کے وجود میں آنے کے گوناگون علل وعوامل هیں جیسے:
٠- پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے توسط سے حضرت علی علیه السلام کی جانشینی کے بارے میں وصیتوں اور فر مودات سے بعض لوگوں کی لا پروائی –
٠- دوسرے ادیان کے لوگوں کا اسلام کے دائرے میں آکر ثقافتی ملاوٹ کا وجود میں آنا-
٠- حقیقی اسلام کی تعلیمات اور معارف اهل بیت علیهم السلام سے دوری اختیار کر نا-
٠- ایک صدی تک حدیث نبوی لکھنے پر پابندی-
٠- خلفائے اموی کے توسط سے بعض خلفاء کے حق میں جعلی احادیث گڑھنے کا اقدام-
٠- اموی اور عباسی خلفاء کے توسط سے مسلمانوں کے درمیان مذهبی اختلافات کو هوا دینا ، تاکه اپنا الوسیدھا کر کے اپنی حکمرانی کو جاری رکھـ سکیں-
٠- لوگوں کی جهالت اور ان کا پروپیگنڈا کے اثر میں آنا-
یه بات مسلم هےکه کم از کم ان میں سے بعض عوامل اسلام کو تحریف اور نابود کر نے کے لئے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت تھے – خاص کر وه تحریکیں اور تحریفات جو یهودیوں کی طرف سے انجام پائی هیں اور ان کی گڑھی گئی جعل احادیث" اسرائیلیات" کے نام سے مشهور هیں- لیکن بعض دوسرے عوامل دنیا پرستی یا کینه و حسد کی بنیاد پر مبنی هیں اور هر گروه مختلف سیاسی چالوں سے کچھـ لوگوں کو ، صراط مستقیم کی طرف هدایت کر نے والے اهل بیت عصمت و طهارت علیهم السلام سے دور کر کے ایک خاص فرقه تشکیل دینے میں کامیاب هوا هے – ان میں سے بهت سے فر قے ، زمانه گزر نے کے ساتھـ ساتھـ نیست و نابود هو چکے هیں اور بعض فر قے حالیه صدیوں میں تشکیل پائے هیں- ان تمام ریشه دوانیوں کے باوجود ائمه اطهار علهیم السلام اور ان کے مخلص شیعوں کی شجاعت ، جوانمردی ، کوشش اور صبر واستقامت کے نتیجه میں خالص محمدی (ص) اسلام اور وحی الهی کا عظیم منبع محفوظ هو کر آنے والی نسلوں میں منتقل هو سکا هے-
جب تک پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم مسلمانوں کے در میان موجودتھے ، مسلمان، بظاهر هی سهی، آپسی اتحاد و یکجهتی کی حفاظت کرتے هوئے آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے گرد جمع تھے – پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے "یوم الدار" میں، حدیث انذار کی فرمائش کی تھی ، اور اپنے رشته داروں کو دعوت دے کر ١٣ ساله امام علی علیه السلام کو اپنا وصی اورخلیفه مقرر اور متعارف کر چکے تھے اور اس کے بعد هر مناسب موقع اور فر صت پر اس امر کی تاکید فر ماکر دوسروں کو ان کی اطاعت کر نے کی دعوت دیتے تھے – یهاں تک که حجته الوداع کو انجام دینے کےبعد ١٨ ذی الحجه ١٠هجری کوغدیر خم میں ، حضرت علی علیه السلام کو باضابط طور پر امام ، سرپرست و ولی کے عنوان سے لوگوں میں متعارف فر مایا اور ان کے لئے لوگوں سے بیعت لی گئی اور ان کی ولایت ،دین کے اتمام ، کامل اور نعمت الهی کے عنوان سے پھچنوایا گیا [1] لیکن رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد ابھی آپ(ص) کا جسم اطهر زمین پر هی تھا که مسلمان آپ(ص) کی جانشینی کے بارے میں اختلافات سے دو چار هوئے – یهیں پر لوگ دو حصوں میں بٹ گئے ، جس گروه نے اس حالت میں خلافت کے انتخاب کو پیغمبر اکرم صلی الله اعلیه وآله وسلم کی فرمودات کے مخالف جانااور اس کی پیغمبر(ص) کے حقیقی جانشین کی حیثیت سے تائید نه کرتے هوئے مذمت کی، وه گروه شیعیان علی بن ابیطالب کے نام سے مشهور هوا اور دوسرے گروه کے لوگوں نے (قومیت اور قبیله کے تعصب کی بنا پر) ظاهر کو دیکھـ کر کها که همارے لئے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے داماد اور سسر میں کوئی فرق نهیں هے! اب جبکه یه لو گ اقتدار کو حاصل کر چکے هیں ، قانونی حیثیت رکھتے هیں اور ان کی اطاعت ضروری اور ان کی نافر مانی حرام هے- یه اسی انحراف فکری کا نتیجه تھا که جب یه کها گیا که: چونکه حسین علیه السلام نے وقت کے خلیفه (یزید امیرالمومنین) کےخلاف بغاوت کی هے، اس لئے ان کا خون بهانا مباح هے !یزید نے غلطی کی تھی اور اس نے اپنی اجتهادی غلطی پر توبه کی هے – یهیں سے شیعه وسنی نام کے دو گروه وجود میں آگئے- معاویه اور علی علیه السلام کی لڑائی کے بعد فرقه خوارج وجود میں آگیا- بنی امیه اور بنی مروان کی حکومت کے بعد اور ان کی بنی عباس سے لڑائی کے نتیجه میں بنی امیه اور بنی مروان نابود هو گئے – بنی عباسیوں کے دور میں گفتگو، تعلیم و تعلم اور یونانی وعبرانی کتابوں کے عربی میں تر جمه کا باب کھل گیا – یهود ونصاری نے خلفاء کے در بار میں نفوذ کیا اور انھوں نے اپنے آپ کو لوگوں میں اسلامی علماء و محدثین کے عنوان سے متعارف کیا ، اس کے نتیجه میں مختلف نظریات نے جنم لیا ، جبکه ظالم حکام کی طرف سے فرزندان رسول(ص) پر دباٶ جاری رھا اور انھیں صحیح دین کی تبلیغ اور اشاعت کے حق سے محروم کر کے گوشه نشینی پر مجبور کیاگیا اور دوسری جانب احادیث کا جعل کر نے والوں کو کھلی ڈھیل دی گئی-
اس لئے عصررسا لت سے جدا هوئے اور بنی امیه کے طرز تفکر سے سیرآب هوئے لوگوں نے بنی عباسیوں کے در باری علماء کی تعلیمات کی طرف رخ کیا، اور بنی عباسیوں نے بھی اپنی حکو مت کو پائیداری و استحکام بخشنے کے لئے مذاهب اور فرقه سازی کا بازار گرم کیا- اس کے باوجود تبلیغ و تعلیم اور وعظ و نصیحت کاکام ایسے افراد کے هاتھـ میں تھا جو ائمه اطهار(ع) کے شاگرد تھے، لیکن انهوں نے اپنے آپ کو خلفا کےدربارکےهاتھوں فروخت کردیا ا تھااورمال دنیا کے پیچھے پڑکر آخرت کی طرف پشت کرلی تھی – اس لئے ایک طولانی مدت تک دوسرے مذاهب کے ساتھـ مذهب شیعه کو ایک اسلامی مذهب کے عنوان سے پهچانا نهیں جاتا تھا!
اسلام میں اختلاف ، پارٹی بازی، افتراق اور ٧٢فر قوں کا وجود میں آنا اس گروه کی کار کردگی کا ماحصل هے جنھوں نے سپاه اسامه میں شرکت کر نے سے نافرما نی کر کے سقیفه میں جمع هو کر حضرت علی(ع) کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) کی تمام وصیتوں اور غدیر خم کے واقعه اور علی(ع) سے اپنی بیعت کو فراموش کر کے امت اسلامیه کو اسلام کی خالص تعلیمات سے کافی حد تک محروم کیا-
کچھـ لوگ اپنے آپ کو سنت رسول الله (ص) کا پیرو جانتے تھے ، لیکن اپنی خلافت کے آغاز پر اسلامی حدود کو معطل کر کے نصوص کے مقابلے میں اجتهاد کیا - بعض لوگوں نے اعلان کیا که " رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانه میں دو متعه حلا ل تھے میں ان دونوں کو حرام قرار دیتا هوں، متعه نساء اور متعه حج (عمره تمتع اور حج تمتع کے در میان محل هو نا )[2] تھوڑی هی مدت کے بعد " حی علی خیرالعمل" کو اذان سے حذف کیا گیا تاکه لوگ نماز کے بجائے روم اور ایران سے جهاد کر نے کے لئے جائیں ! مستحب نماز جماعت کے ساتھـ پڑھی گئی اور آخر کار نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے وضو کے طریقه میں بھی تبدیلی لائی گئی تاکه یه چیز بھی تغییر سنت سے بے بهره نه رهے ! بعض لوگوں نے سنت رسوال الله کے بجائے سنت خلفاء کے سامنے هتھیار ڈال دئے اور شیعوں اور علویوں کی تشخیص کر نے کے لئے عثمانی طرز کے وضو پر اصرار کیا تاکه علی (ع) و زهراء (ع)اور شیعوں کی نسل کو نیست و نابود کردیں – شامات کے لوگوں نے مسلمانوں کے توسط سے شامات کے فتح هو جانے کے بعد امویوں کے علاوه کسی کو اسلام کے نمونه کے طور پر نهیں دیکھا تھا – معاویه ان کے لئے خلیفه رسول الله (ص) بن گیاتھا ،جس کی نیت یه تھی که رسول الله (ص) کا نام ونشان باقی نه رهے اور رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم اور علی(ع) وزهراء(ع) کی ذریت کا خاتمه هو جائےاسی لئے اس کی سب سے اهم سنت ، یعنی نماز جمعه کے خطبوں اور دوسرے اهم سر کاری خطبوں میں علی علیه السلام پر لعن اور سب وشتم کر نے کی رسم عمر بن عبدالعزیز کے زمانه تک جاری رھی اور ائمه هدی علیهم السلام کو آخر تک گوشه نشین کردیا گیا-
صرف بنی امیه اور بنی عباس کے در میان اقتدار کی رسه کشی کےدوران اور بنی عباس کے بظاهر آل علی (ع) کی حمایت کے نام پر ناٹک کے نتیجه میں ،ائمه اطهار علهیم السلام میں سے حضرت امام محمد باقراور امام جعفر صادق علیهماالسلام کے لئے کسی حد تک تبلیغ ، تعلیم وتر بیت کا مناسب ماحول پیدا هو گیا اور پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی غیر تحریر شده احادیث ان کے توسط سے بیان ھوئیں اور ان کی تفسیریں کی گئیں ، قرآن مجید کے باطن اور اسرار ظاهر کئے گئے اور حقیقی و خالص معارف اور صریح و بلیغ اسلامی احکام کے خزانے کھل گئے اور یه معارف علمائے شیعه اور ان کے شاگردوں کے اهتمام سے آنے والی نسلوں میں منتقل هوئے – لیکن بنی عباسیوں کے اقتدار پر قبضه مستحکم قبضه کر نے کے بعد ائمه اطهار علیهم السلام پر ایک نئی صورت میں دباٶ بڑھانا شروع کیا گیا - ائمه اطهار علیهم السلام اس دوران یازندانوں میں تھے ، یاجلا وطن تھے یا فوجی چها ونیوں میں محبوس یا تقیه کر نے پر مجبور تھے – دوسری طرف علم ودانش اور وعظ و خطابت کے نام پر عیاری اور فریب کاری کا بازار گرم کیا گیا اور جس کو بھی اسلام کے عالم ، محدث و مجتهد کے عنوان سے متعارف کیا جاتا تھا وه اپنے گرد پیرو کاروں کی ایک جماعت کو جمع کرتا تھا ، یهاں تک که ان کی کثرت اس حد تک بڑھ گئی که اپنا الو سیدھا کر نے کے لئے عمداو قصدا یه بازار گرم کر نے والے خلفائے بنی عباس بھی خوف میں پڑ گئے – اس لئے انھوں نے سر کاری اور باقاعده مذاهب کو صرف چار مذاهب: شافعی ، حنبلی، مالکی اور حنفی میں محدود کردیا اور حکم صادر کیا گیا که ان کے علاوه تمام رسالوں کو جمع کر کے نابود کردیا جائے!
خلفاء (بنی امیه اور بنی عباس) اور ان کے کارندوں میں مختلف محر کات کے حامل مختلف گروهوں کو پایا جاتا هے جنهوں نے مذکوره مسئله میں آگ پر تیل چھڑ کنے کا کام کیا ، ان میں سے چند گروهوں کی طرف ذیل میں اشاره کیا جاتا هے:
١- وه لوگ جو حضرت علی علیه السلام اور حضرت زهراء سلام الله علیها کی نسبت حسد، کینه اور بغض رکھتے تھے اور اس امر کا رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے زمانے میں بھی اظهار کر چکے تھے ، اگر چه ضعیف اور خفیف صورت میں ،اهل سنت اور شیعوں کی کتابوں میں ان کے نام درج هیں –
٢- وه لوگ جو صرف مقام و منزلت اور شهرت حاصل کر نے کے لئے اسلام قبول کرچکے تھے ، اور فرصت کی تلاش میں تھے ، ان لوگوں نے رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی رحلت کے بعد اس وقت یه فرصت پائی جب حضرت علی علیه السلام رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی تجهیز و تکفین میں مشغول تھے-
٣- وه لوگ، جو فتح مکه میں اپنی جان بچانے کے لئے ایمان لائے تھے اور همیشه اسلام میں تحریف کرنے اور اسے نابود کر نے کے درپے تھے اور اموی اس سلسله میں پیش پیش تهے –
٤- وه عرب اور یهودی منافقین ، جو دین میں تحریف کر نے اور مسلمانوں کو شکست دینے کےلئے گھات لگائے بیٹھے تھے-
٥- وه یهودی علما، جنهوں نے امویوں کے دربار میں نفوذ کیا تھا اور اسلام کے مبلغ ، خطیب اور محدث کے روپ میں شهرت پیدا کر چکے تھے اور اپنے مقاصد کو پورا کر نے کے سلسله میں سر گرم عمل تھے-
٦- جاهل ، واعظ اور حدیث کا جعل کر نے والے لوگ جو مقام و منزلت، شهرت اور مال کو سمیٹ نے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کر تے تھے-
٧- غیر ذمه دارعلما اور صاحب نظر ، جنھوں نے قرآن مجید اور احادیث کو اپنے لئے ذریعه معاش قرار دیا تھا اور شهرت و مقام حاصل کر نے کی لالچ میں اپنے اساتید یعنی اهل بیت علیهم السلام سے دوری اختیار کر چکے تھے – یه لو گ قرآن مجید اور سنت نبوی کے بارے میں کسی قسم کی آگاهی کے بغیر اور عربی ادبیات کی پیچید گیوں کے بارے میں علم رکھنے کے بغیر دین اور قرآن مجید کی تفسیر بیان کر نے لگے اور ان میں سے هر ایک نے اپنے لئے پیرو کار جمع کئے تھے-
٨- ساده لوگ، جو حواد ث و امتحانات کے سامنے تاب نه لاسکے اور ائمه اطهار علهیم السلام سے دوری اختیار کر کے غلط عقائد سے دو چار هوئے، جیسے زید بن علی (ع) کےزنده هو نے کا عقیده (جبکه ایک مدت تک ان کی لاش دار پر لٹکی رهی ) یا اسماعیل بن جعفر(ع) کے زنده هو نے کا عقیده( جسے ان کے باپ نے دفن کیا تھا) اور ان کی امامت کا قائل هو نا –
٩- آخر کار سامراجی طاقتوں اور صهیو نزم کی طرف سے مسلمانوں میں اختلاف و افتراق پیدا کر کے ان کو نابود کر نے کی سازیشیں خاص کر بابیت ، بهائیت ، وهابیت اور طالبان وغیره جیسے طرز تفکر کو پھیلا کر اپنا الو سیدها کر نا-
اس لحاظ سے امت اسلامیه میں تفرقه پھیلانے کے عوامل کو اندرونی اور بیرونی عوامل میں تقسیم کیا جاسکتا هے – اندرونی عوامل ، جیسے: اهل بیت(ع)[3] کی نسبت امویوں اور عباسیوں کی طرف سے کینه، حسد اور بخل اور لوگوں کی جهالت ، مقام و منزلت، شهرت پانے کا رجحان – اور بیرونی عوامل : ایک سو سال تک احادیث اور سیرت نبوی(ص) کو درج کر نے کی ممانعت، عربی ادبیات سے لگاؤ کا فقدان اور قرآن مجید کی قرائت اور تفسیر و تاویل میں اختلافات کا پیدا هو نا ، اسلامی کتابوں میں بے شمار جعلی احادیث کا درج کیا جانا ، قرآن مجید اور علم غیب کے عالم، اهل بیت اطهار علهیم السلام سے دوری اختیار کر نا، خلفا کے توسط سے سنت نبوی اور نص کے مقابل میں اجتهاد و استنباط کر نا، خلفاء کی طرف سے بعض فرقوں اور مذاهب کی حمایت اور همت افزائی کر نا ، ائمه اطهار علیهم السلام اور ان کے شیعوں کو گوشه نشینی اختیار کر نے پر مجبور کر نا اور ان پر دباٶ ڈالنا ، بعض یهود و نصاری کا دین اسلام میں نفوذ کر کے سر گرم عمل هو نا اور حاکم طبقه کے توسط سے لوگوں کا گلا گھونٹنا-
بیشک یه عوامل کسی نه کسی طرح اسلام اور مسلمانوں میں تحریف اور تفرقه پھیلانے میں موثر تھے اور دوسرے لوگ بھی ناخواسته اس جال میں پھنس کر ان عوامل کو شدت بخشنے کا سبب بنے ۔ مسلم امر یه هے که مختلف طریقوں اور گوناگون نظریات میں سے صرف ایک صراط مستقیم و حق هے اور دوسرے جس قدر اس صراط مستقیم سے هم آهنگ هوں اسی قدر حقیقت سے بهره مند هو ں گے لیکن جب انحرافات اور خطاٶں سے مخلوط هو جائیں تو، باطل شمار هو ں گے –
قرآن مجید ، جو فریقین کے اعتقاد کے مطابق معجزه الهی هے اور هر قسم کی تحریف سے محفوظ هے اور سنت نبوی ، جو شیعه وسنی کے نزدیک صحیح و متواتر هے ،سے صحیح اور حق راه کی معرفت حاصل کر نا ممکن هے اور ائمه اطهار علیهم السلام کی سنت اور سیرت بھی اسی سلسله کی ایک کڑی هے –
منابع و ماخذ:
١- طباطبائی، محمد حسین ، المیزان، ج ٤ ، انتشارات اسلامی ، قم ،ص٣٦٥- ٣٦٤-
٢- قمی مشهدی ، محمد بن محمد رضا ، کنز الدقائق، ج٤،مٶسسه طبع ونشر وزارت ارشاد ،طبع ١، ١٤١١ ه. ق، تهران، ج٣،ص٤١٧و ج٤،ص١١٧-
٣- موسوی، شرف الدین، ترجمه ، امامی، محمد جعفر، حق جوو حق شناس ، بنیاد معارف اسلامی، طبع ١، ١٣٧٣قم-
٤- جوادی آملی ، عبدالله ، تفسیر تسنیم ، ج١، اسراء ، طبع ٢، ١٣٧٨، قم،ص٩٩- ٩٨-
٥- جوادی آملی ، عبدالله، قرآن در قرآن ،اسراء، طبع٢،١٣٧٨،قم ،ص٣٥٠-٣١٥-
٦- خسرو پناه ، عبدالحسین، کلام جدید، مرکز مطالعات و پزوھش های فرهنگی حوزه قم ،طبع ١، ١٣٧٩قم،ص٢٣٩-١٥٠-
٧- شهرستانی ،سید علی، وضوی پیامبر ، عروج اندیشه ،طبع١، ١٣٧٧، مشهد-
٨- اصغری، سید محمد، قیاس و...، کیهان ، طبع٢، ١٣٧٠،تهران-
٩- قمی ، شیخ عباس، تتمه المنتهی ، پیام آزادی ، طبع ١، ١٣٧٩تهران-
١٠- تیجانی، محمد، اهل سنت واقعی، ج١و ٢، بنیاد معارف اسلامی ، طبع ٣، ١٣٧٤تهران-
١١- نقوی، سید محمد تقی، شرح وتفسیر خطبه غدیر ، مرکز تحقیقاتی فر ھنگی جلیل ، طبع١، ١٣٧٤ تهران ـ