Please Wait
9676
اگر چہ انسان کے لئے خدا کی طرف سے شرعی تکلیف کے سلسلہ میں شرائط میں سے ایک شرط انسان کا بالغ ھونا ہے، لیکن ایسا خیال نہیں کرنا چاہیئے کہ تمام بچے اپنے بچپن کے دورا ن کسی پابندی کے بغیر بالکل ازاد ہیں اور جو کام چاہیں اسے انجام دے سکتے ہیں – فقہائے اسلام نے ان بچوں کو دوسرے بچوں سے مستثنی قرار دیا ہے، جو برے اور بھلے کو سمجھ سکتے ہیں- ان کے فتوی کے مطابق اگر ممیز بچے کوئی نیک کام یا کوئی عبادت انجام دیں تو انھیں مستحب اعمال انجام دینے کا اجر دیا جائے گا، حتی کہ بعض فقہا کا یہ اعتقاد ہے کہ یہ کام نہ صرف مشق ہے، بلکہ ایک صحیح شرعی عبادت شمار ھوگا- اس کے مقابلے میں بعض وہ کام جو غیرممیز بچے کے لئے انجام دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، ممیز بچے یا ان کے شرعی سرپرست ایسے کام انجام دینے کے سلسلہ میں مسئول ہیں اور انھیں اس کا تاوان دینا ھوگا-
انسان کے مکلف ھونے کی شر ائط میں سے ایک اس کا بالغ ھونا ہے، اس لئے غیر مکلف انسان کو سزا دینا صحیح نہیں ہے-[1] اس کے باوجود ، فقہا نے بہت سے مواقع پر تکلیف کی عمر تک نہ پہنچے ھوئے ، لیکن اچھے اور برے کو سمجھنے والے ، یعنی ممیز بچوں[2] کے لئے کچھ احکام بیان کئے ہیں، کہ ان میں سے بعض حسب ذیل ہیں:
۱-اگر کوئی شخص نماز کی حالت میں ھو اور کوئی دوسرا شخص اسے سلام کرے، تو واجب ہے کہ اس کے سلام کا جواب دیا جائے، حتی کہ اگر سلام کرنے والا ممیز بچہ بھی ھو-[3]
۲-نابالغ بچے کے ساتھ معاملہ کرنا صحیح نہیں ہے، لیکن اگر کوئی ممیز بچہ ھو اور اس کے لئے معمول کی کم قیمت کی کسی چیز کا اس کے ساتھ معاملہ کریں، تو وہ صحیح ہے-[4]
۳-ایک مسلمان ممیز بچہ کسی حیوان کو شرعی طورپر ذبح کرسکتا ہے-[5]
۴-اگرکوئی ممیز بچہ کسی پر تہمت لگائے، اگر چہ اس کو اسلامی حد جاری کرنے کی سزا نہیں دی جاسکتی ہے، لیکن اسلامی حاکم کے ذریعہ اس کی تنبیہ کی جانی چاہیئے-[6]
۵-ممیز بچے کو نماز پڑھنے اور دوسری عبادتیں انجام دینے کی عادت ڈالنا مستحب ہے بلکہ اسے قضا نمازیں بجا لانے پر مجبور کرنا بھی مستحب ہے- [7]
۶-انسان کے لئے اپنی شرم گاہ کو دوسروں سے چھپانا واجب ہے- اس حکم سے ایک استثنی بچہ ہے- لیکن ممیز بچے اس سے مستثنی نہیں ہیں بلکہ وہ اسی پہلے حکم میں شامل ہیں- [8]اسی طرح دوسروں کی شرم گاہ کو دیکھنا حرام ہے، مگر یہ کہ بچہ ھو، تو اس صورت میں قصد شہوت کے بغیر اس کی شرم گاہ کو دیکھا جاسکتا ہے، لیکن یہ حکم غیر ممیز بچوں کے لئے مخصوص ہے اور ممیز بچے کی شرم گاہ کو دیکھنا بھی حرام ہے-[9]
فقہا میں سے ایک فقیہ، بلوغ کو تکلیف کی عمر تک پہنچنے کی ایک شرط بیان کرنے کے بعد مندرجہ ذیل تین نکات پرتوجہ کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں:
۱-تکلیف کی عمر تک نہ پہنچے ھوئے بچہ کے غیر مکلف ھونے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس کا شرعی سرپرست اسے امر و نہی کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا ہے اور وہ بعض نا مناسب کام انجام دینے پر اس کو سزا نہیں دے سکتا ہے یا نیک کام انجام دینے پر اس کی ہمت افزائی نہیں، کرسکتا ہے بلکہ اسے ایسے بچے کی تنبیہ کرنی چاہیئے جو اس مطلب کو سمجھنے کی قابلیت رکھتا ھو، یعنی ممیز ھو تاکہ بالغ ھونے پرا پنا فریضہ انجام دے سکے-
۲ – تکلیف شرعی کے لئے بالغ ہو نے کی شرط کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر بچہ عبادی اعمال مکمل طور پر انجام دے سکتا ہو تو صحیح نہیں ہے ،بلکہ مکلف افراد کے لئے واجب اعمال کے لئے واجب ومستحب اعمال کو ممیز بچے کے توسط سے انجام دینا اگر اس کے لئے نقصان دہ نہ ہو تو مستحب ہے- اس بنا پر جب بچہ سات سال کی عمر تک پہنچتا ہے ، تو اس کے لئے نماز پڑھنا مستحب ہے اور اسی طرح جب وہ ۹سال کی عمرتک پہنچے تو اسے روزہ ر کھنا مستحب ہے، حتی کہ اگر وہ دن کے ایک حصہ تک ہی روزہ رکھ سکے-
۳-ایسا نہیں ہے کہ ممیز بچہ کی ، اس کے برے کام انجام دینے کے لئے ، کسی بھی قسم کی پوچھ تاچھ نہیں کی جائے گی، بلکہ مثال کے طور پر اگروہ کوئی ایسا کام انجام دے جس سے دوسروں کو نقصان پہنچے، تو اسے مہلت دی جاتی ہے کہ بالغ ھونے پر اس کی تلافی کرے-[10]
یہاں پر دو نکتوں کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:
۱- ممیز کی عمر تک نہ پہنچے بچہ کے رفتار وکردار کے بارے
میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس کے کام کو برے اور بھلے سے نسبت دی جاسکتی ہے اور اس طرح، جو کچھ سورہ زلزال میں انسان کے نیک وبد اعمال کے مجسم ھونے کے بارے میں اشارہ ھوا ہے ، وہ اس قسم کے بچوں پرصادق نہیں آئے گا-
۲- تمیز اور پہچان بھی ایک نسبتی امر ہے- بہ الفاظ دیگر ایک بچہ شرع کے مد نظر بعض موضوعات میں، شناخت اورتمیز رکھ سکتا ہے لیکن بعض دوسرے امور میں ا س قسم کی خصوصیت نہیں رکھتا ھو، وہ صرف ان امور میں جواب دہ ہے، جنھیں وہ سمجھتا ہے-
ا س بحث کے بارے میں نتیجہ کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ: اگر انسان بلوغ کی عمر تک نہ پہنچا ھو، لیکن ایک ھوشیار، چالاک، عاقل، اور ممیز بچہ ھو، اور برے اور بھلے کی بخوبی تشخیص کر سکتا ھو، تو ھماری نظر میں اس قسم کے بچے کے اسلام اور ایمان کو قبول کیا جاسکتا ہے نہ صرف اس کے ایمان کو قبول کیا جاسکتا ہے، بلکہ ھمارے فقہا کے بیان کے مطابق : اس قسم کے نا بالغ بچے کی عبادتیں بھی صحیح ہیں، اس کی نماز، روزہ، حج، عمرہ، اور دوسری عبادتیں جنھیں وہ تمام شرائط کی رعایت کرتے ھوئے انجام دیتا ہے، صحیح ہیں، نہ کہ مشق کی طور پر، [11]اس بنا پر جب اس قسم کے نا بالغ بچے کی عبادتیں صحیح ھوں تو اس کے ایمان کو بدرجہ اولی قبول کیا جاسکتا ہے- نتیجہ یہ کہ ، بالغ ھونے سے پہلے ممیز بچہ کے ایمان [12]کو قبول کیا جاسکتا ہے- اس سے بالا تر یہ کہ ھمارا اعتقاد ہے کہ اس قسم کے نا بالغ بچے ، بعض گناھوں کے لئے مسئول ہیں اور صرف تکلیف کی عمر{بلوغ } نہ پہنچنے کی وجہ سے انھیں تمام گناھوں سے معاف نہیں کیا جاسکتا ہے اور اس طرح انھیں کھلی ڈھیل نہیں دی جاسکتا ہے- اس لئے اگر کوئی ممیز بچہ ابھی بالغ نہ ھوا ھو اور وہ جانتا ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل کرنا برا کام ہے، اور وہ کسی بے گناہ شخص کو قتل کر ڈالے، تو وہ اس کے خون کا ضامن ہے اور خدا کی بارگاہ میں مسئول ہے- نتیجہ کے طور پر نا بالغ بچے اگر عاقل، ھوشیار اور ممیز ھوں تو ان کا ایمان قابل قبول ہے- اس بناپر بلوغ ، اسلام اور ایمان کو قبول کرنے کی شرط نہیں ہے-[13]
[1][1] - صدر، سید محمد باقر، الفتاوی الواضحِۃ، ص۱۲۶۷-
[2] - توضیح المسائل امام خمینی، م ۵۷-
[3] - ایضا، م ۱۱۴۱-
[4]- ایضا، م ۱۳۸۹-
[5]- ایضا، م ۲۵۹۴-
[6]- تحریر الوسیلہ، ص ۸۷۶-
[7]- توضیح المسائل، م ۱۳۸۹-
[8] - ایضا،
[9] - ایضا، م ۲۴۳۶-
[10] - صدر، سید محمد باقر، ایضا-
[11] - یزدی ، سید محمد کاظم ، العروۃ الوثقی، ج۲،ص ۲۱۷-
[12]- مکا رم شیرازی، ناصر، آیات ولایت در قرآن، ص ۳۶۱-۳۶۲-